کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 180
اسے یہ جرأت نہیں ہوسکتی کہ وہ ائمہ حدیث کو غیر فقیہ کہے۔ امام بخاری کی تبویب نے بڑے بڑے اربابِ فقہ وبصیرت کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ باقی محدثین ابوداؤد، نسائی، ترمذی، موطا، ابن ماجہ کی تبویب نے ان کے تفقہ اور فقہی بصیرت کو واضح کردیا ہے۔ جہاں تک احادیث سے مسائل کے استخراج اور فہم کا تعلق ہے، ائمہ حدیث کی تبویب میں صحیح اور معیاری فقہ پائی جاتی ہے۔ اگرفقہ فرضی صورتوں کا نام ہےاور اس سے غیر موجود بلکہ ناممکن الوقوع معاملات اور احکام کاتعلق ہے تو واقعی اہلحدیث کی فقہ یا فقہ الحدیث میں اس کا ثبوت نہیں ملے گا۔ یہ خوبی فقہ العراق میں ہوگی، لیکن یہ دراصل فقہ نہیں۔ ائمہ حدیث کا مقام تو مصطلح فقہاءسے کہیں زیادہ ہے۔ فرضی صورتوں پر احکام مرتب کرنا بھی کوئی مشکل چیز نہیں لیکن((علم ما لم يقع والجهل عما وقع )) اہلحدیث کے نزدیک اسے فقہ کہنا ہی درست نہیں۔ شاہ ولی اللہ چاہتے ہیں کہ مروجہ فقہ کو حدیث اورآثار ِ سلف کی تائید حاصل ہواور ظاہریت خالصہ کوتفقہ اور قیاسِ جلی سے ہم آہنگ کیا جائے۔ ہندوستان میں تحریک اہلحدیث کامقصد صرف اسی قدر ہے، جسے مستقل طور پر گھبراہٹ کا پیغام سمجھ لیا گیا ہے اور حضرات دیوبند اور اربابِ بریلی دونوں اس مکتبِ فکر سے گھبرانے لگے۔ حضرات بریلی سے تو کوئی شکوہ نہیں، کیونکہ وہاں پورا انحصار ہی جذبات اور چند نعروں پر ہے۔ عوام کی پیدا کی ہوئی رسوم اور چند بدعات کا نام شریعت رکھ لیاگیا اور غلط قسم کے رکھ رکھاؤ کو ادب سے تعبیر کرلیا گیا ہے، ان حضرات کے نزدیک یہی چیزیں کتاب وسنت کا نعم البدل ہیں۔ یہ حضرات توحید وسنت کی ٹھوس آواز سے ڈریں تو بجا ہے، لیکن تعجب حضراتِ دیوبند سے ہے، وہ بھی وہابی کے لفظ سے اس قدر گھبرائے کہ میدان چھوڑ گئے!! سانحہ بالا کوٹ کےبعد ان حضرات کی رسمی تصوف کے ساتھ کچھ ایسی وابستگی ہوئی