کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 18
سے ماورا دیانتدار مورخین کا کردار شروع ہوتا ہے کہ وہ افراط وتفریط سے بچ کر درست بنیادوں پر تاریخ کی تدوین، غلطیوں کی اصلاح کو کارگاہِ شیشہ گری میں محفوظ رکھنے اور ہراہم اور قابلِ ذکر چیز کو ذکر کرنےکے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ حضرت مولانا علامہ اسماعیل بن ابراہیم سلفی رحمۃ اللہ علیہ(امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث، مغربی پاکستان) کا انہی منفرد محققین میں شمار ہوتا ہے۔ آنجناب نے اپنی یہ کتاب تحریک اہلحدیث کے موضوع پر لکھی ہے، جس میں ان مختلف مراحل کاذ کر کیا ہے، جن سے یہ تحریک ہندوستان میں گزرتی رہی اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کا اس کے متعلق کیا موقف رہا؟تقلید اور جمود کے خلاف شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی کوششوں کے کیا اثرات مرتب ہوئے اور انہوں نے کس طرح لوگوں کو تقلید وجمود کی بیڑیوں سے آزاد ہونے اور کتاب وسنت پر عمل کرنے کی دعوت دی؟وہ کون لوگ تھے جنہوں نے بحث وتحقیق کا پرچم اٹھایا اور اس کے بعد اعتقادی اور عملی بدعتوں کی مزاحمت کرتے رہے؟ یہ اور کئی دیگر اہم نقاط ہیں جن کی تحقیق وتفصیل مولانا اسماعیل صاحب کی یہ کتاب پیش کرتی ہے۔ اس کتاب کی تالیف کا ایک خاص سبب تھا، جس طرح مؤلف رحمۃ اللہ علیہ نےبھی اشارہ کیا ہے کہ پاکستان میں بعض مقلدین نے اہلحدیث اور مقلدین کے درمیان چند اختلافی مسائل کو ہوا دے رکھی ہے، جس کی وجہ سے مؤلف رحمۃ اللہ علیہ، نےتعصب اور تقلید سے آزاد ہوکر صحیح احادیث پر عمل پیرا ہونے کے اہلحدیث کے موقف اور نقطۂ نظر کا دفاع کرنا ضروری سمجھا۔ لیکن انھوں نے اپنی اس بیش قیمت اور اچھوتی تحقیق میں مدمقابل کا نہ صرف مناظرانہ اورمتکلمانہ انداز میں رد کیا ہے، بلکہ اختلافی مسائل، مسلمانوں کی دینی حالت، گروہ بندی، فرقے سازی اور ان ارتقائی منازل پر بڑی دقیق اور علمی اسلوب میں بحث کی ہے، جن سے کتاب وسنت کی تحریک کو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے