کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 179
اصحاب فقہ بھی، کسی چیز کی فنی تدوین دوسری چیز ہے اور اس کا صحیح فہم دوسری چیز۔
صحابہ کے ان تذکروں میں عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کا پورا تذکرہ امام احمد بن حنبل نے مسند میں نقل فرمایا ہے۔ [1] حضرت ابوہریرہ کی مسند بواسطہ ہمام بن منبہ مطبوع موجود ہے۔ تابعین کا یہ سلسلہ اور بڑھ گیا اور یہ نوٹ اور ضخیم ہوگئے۔ زہری، ابن عیینہ، عمر بن عبدالعزیز کے تذکرے اب بھی دستیاب ہوسکتے ہیں۔ مسند احمد میں یہی نوٹ بصورت مسانید موجود ہیں اور یہ ضخیم چھے جلدوں میں مطبوعہ اور غیر مطبوعہ صدیوں سے ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ یہ دور فقہاء اور محدثین کا ہے، وہ احادیث کو حفظ بھی کرتے ہیں، اس کے مضمون کو سمجھ کر اس کی روشنی میں فتویٰ بھی دیتے ہیں۔ اس کے مواد کے لیے محلّی ابن حزم، مغنی ابن قدامہ، مصنف ابن ابی شیبہ ہمارے ہاتھوں میں ہے، جس میں آثار کی بڑی مقدار موجود ہے۔ اسے فقہ کہیے یا آثار، ان لوگوں نے قرآن اور سنت سے سمجھ کر یہ فتوے دیے، بلکہ محدثین کی فقہ کے لیے تو قرآن وسنت کے بعد یہی آثار اجتہاد اور استنباط کی اساس اوربنیاد ہیں۔ (حجۃاللہ:1/119)
تدوینِ حدیث کا دور:
اس کےبعد تدوینِ حدیث کا دور شروع ہوتا ہے، اس وقت کی مصنفات میں احادیث پر تبویب کی گئی ہے۔ صحیح بخاری، مسلم، نسائی، ترمذی، موطا، ابن ماجہ وغیرہ کے مصنفین نےتبویب کی ہے۔ احادیث سے مسائل استنباط فرمائے ہیں، جس سے انسان میں قوت استنباط پیدا ہوتی ہے۔ مذاہب اربعہ کی کتبِ فقہ تو مسائل کی نقل ہے، ان کتابوں سے استنباط کا ملکہ مشکل ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ ان ضخیم کتابوں کے ہوتے ہوئے کیسے کہاجاسکتا ہے کہ یہ لوگ فقیہ نہیں؟ان کا کام الفاظِ حدیث کا حفظ تھا؟ یہ صرف فنکار تھے؟ ایک پڑھا لکھا شخص جسےحدیث کی کتابوں پر سرسری عبور بھی ہو،
[1] ۔ مسند احمد (2/312۔ 2/319)