کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 178
مکتب ِ فکر کے لحاظ سے ہوا ہے۔ ائمہ قراءت میں اختلاف ہے کہ آیت﴿وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ﴾ پر وقف ہے یا نہیں؟تجویداورقراءت کے متعلق مستند کتاب”النشر في القراءات العشرللعلامة محمد بن محمد الدمشقي(833ھ) میں فرماتے ہیں کہ ” إِلَّا اللَّهُ “پروقف تام ہے:” وهو مذهب أبي حنيفة وأكثر أهل الحديث “(1/227) قدما اہلِحدیث ان تمام راہوں سے آگاہ تھے، جن پر فقہائے متاخرین کو ناز ہے۔ فقہ اور اہلحدیث بچپن میں سنتے تھے: ”اہلحدیث کی مثال عطار کی ہے اورفقہاء کی مثال طیب کی۔ “ اس کا اثر ذہن پر یہ ہوتا تھا کہ شاید یہ دو گروہ ہیں، فقہاءعطار ی نہیں کرتے اور اہلحدیث، حدیث کے طبیب نہیں ہوتے، لیکن جب علومِ حدیث اور دفاترِ سنت دیکھنے کا موقع ملا تو معلوم ہواکہ یہ دو فرقے نہیں بلکہ عملی زندگی میں طبعی رجحانات کے مطابق ایک خاص طریق ہے جسے پسند کرلیاگیا۔ نہ اس کا یہ مطلب ہے کہ محدثین فقہ نہیں جانتے، نہ یہ درست ہے کہ فقہاء حدیث نہیں جانتے۔ قدرت نے سب کو استعداد عطا فرمائی ہے، جس کام کے لیے کسی نے اس استعداد کو استعمال کیا، وہ چیز اسے عطا کردی گئی۔ ائمہ حدیث کے حالات جب ہم پڑھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقۂ د رس میں موجود تھے۔ حدیث کی کتابت اور حفظ وضبط اور اس میں تفقہ کا مشغلہ اس وقت موجود تھا۔ صحابہ حدیث کا دور اور حفظ اسی طرح فرماتے تھے، جس طرح حفاظِ قرآن کرتے ہیں۔ فہم کے لیے بھی اسی طرح محنت کرتے تھے، لیکن اس وقت اس کی شکل تذکرے اور نوٹ کی تھی، کتاب کی طرح مدون نہ تھی۔ صحابہ اس کے غوامض کوسمجھتے تھے، لیکن مروجہ کتب فقہ یا شروحِ حدیث کی طرح لکھنے کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے، اس کے باوجود وہ فقیہ بھی تھے اور محدث بھی، اہلحدیث بھی تھے اور