کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 177
یہ تلخ نوائی محض حفظِ الفاظ پر نہیں۔ یہ تحقیقی مسئلہ ہے جس میں اہلحدیث کی رائے قدمائے احناف کے خلاف ہے۔
دوسرے مقام پر اسی کشف الاسرار انبیاء کے لیے رائے اور اجتہاد کے جواز کا تذکرہ فرماتے ہیں:
((هو منقول عن أبي يوسف من أصحابنا وهو مذهب مالك والشافعي وعامة أهل الحديث ))[1]
”انبیاء کے لیے اجتہاد کی اجازت ہے۔ امام ابویوسف، مالک، شافعی اور اکثر اہلحدیث کا یہی مذہب ہے۔ “
اس میں مذہب اہلحدیث کا تذکرہ بیسیوں مقامات پر آیا ہے۔ حسامی کی شرح غایہ التحقیق میں اکثر مقامات پر اہلحدیث کا ذکر موجود ہے۔
اس لیے اہلحدیث سے مراد صرف حفاظِ الفاظِ حدیث مرا دلینا انتہائی لاعلمی اور بے خبری ہے۔ قدما کی کتابوں میں دوسرے مکاتبِ فکر کی طرح اہلحدیث کا بھی ذکرآتا ہے۔ اصول فقہ میں یہ تذکرہ خاص طور پر ملتاہے، کیونکہ حسبِ ارشاد علامہ کاتب چلپی اس فن کے توبانی ہی معتزلہ ہیں اور اصحاب الحدیث۔ البتہ متاخرین میں عصبیت بڑھتی گئی اور اقتدار بھی اہل تعصب کے ہاتھوں میں آگیا تو حکومت اوراقتدار کے نشے میں اہلحدیث کا ذکر کم ہوتا گیا اور نفرت بڑھتی گئی۔
تیسری صدی تک تو پورے فارس پر مسلک اہلحدیث کا اقتدار تھا۔ مصنفین صحاح اوردوسرے علم حدیث کے مدوّن زیادہ تراسی علاقے کے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان ہی حضرات کو توفیق بخشی کہ علوم کو آئندہ آنےوالے لوگوں تک پہنچائیں اور انھوں نے یہ فرض ادافرمایا۔ فجزاهم عن المسلمين أحسن الجزاء۔
ان حضرات كی علوم پر نظر کا یہ حال تھا کہ تجوید میں بھی ان کی رائے کا تذکرہ ایک
[1] ۔ کشف الاسرار(ص:3/925)