کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 175
حافظ ابن القیم اور ان کے استاذ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اس معرکہ ستخیز اور اس میدانِ کار زار کے بہادر سپاہی ہیں۔ اپنی تصانیف میں ان مباحث کاذکر فرماتے ہوئے اہلحدیث کا ذکر جس عقیدت سے کرتے ہیں، وہ صرف حفظِ الفاظ کی وجہ سے نہیں۔ اعتزال وتجہم اور تشبیہ وتعطیل کے خارزار میں ظواہر نصوص کاساتھ دینا معمولی بات نہیں۔
حافظ ابن قیم کی کتاب((الكافية الشافية في الانتصار للفرقة الناجية)) اس معرکہ کارزار کا رجز ہے۔ جس میں بار بار وہ اہلحدیث کا تذکرہ ان لوگوں میں کرتے ہیں، جنھوں نے فلاسفہ اور متکلمین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سنت کی حمایت فرمائی، تاویل کی دھاندلیوں سے عامۃ المسلمین کو بچایا۔ چند حوالے ملاحظہ فرمائیے:
لا تبھتوا أھل الحدیث بہ فما ذا قولھم تبا لذی البھتان[1]
”اہلحدیث پر بہتان مت لگاؤ، بہتان لگانے والوں کی حالت قابلِ افسوس ہے۔ “
ھذا ھوالحشوی لا أھل الحدیث ائمۃ الإسلام والإیمان
”حشوی دراصل یہ لوگ ہیں۔ اہلحدیث تو اسلام اور ایمان کے امام ہیں۔ “
اسماء سمیتم بھا اھل الحدیث وناصری القرآن ولإیمان[2]
”تم نے اہل حدیث کے کئی نام رکھے ہیں اور وہ صرف قرآن اور ایمان کے معاون ہیں۔ “
من سبھم اھل الحدیث و دینھم اخذ الحدیث و ترک قول فلان[3]
”یہ اہل حدیث کو گالیاں دیتے ہیں، حالانکہ ان کا مذہب حدیث ہے اور اقوالِ رجال کو ترک کرنا۔ “
[1] ۔ القصيدة النونية(ص:145)
[2] ۔ القصيدة النونية(ص:146)
[3] ۔ القصيدة النونية(ص:152)