کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 174
علامہ کاتب چلپی کی نظر اصحابِ مذاہب اوران کی تصنیف پر جس قدر ہے، وہ ان کی کتاب”كشف الظنون“ سے ظاہر ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ((وأكثر التصانيف في أصول الفقه لأهل الاعتزال المخالفين لنا في الأصول ولأهل الحديث المخالفين لنا في الفروع)) (كشف الظنون، ص:89ابجد العلوم :1/325) معلوم ہے جو لوگ اصولِ فقہ میں اصحاب التصانیف ہیں، وہ محض الفاظ کے حافظ نہیں۔ وہ فہمِ الفاظ میں بھی تحقیقی نظر رکھتے ہیں، ان کی اصولِ فقہ پر دقیق نظر ہے، اس لیے انھیں فن کار کہنا کسی فنکار ہی کا کام ہے، کوئی عالم یہ جرأت نہیں کرسکتا۔ اہلحدیث اور متکلمین دوسری صدی میں صفاتِ باری کے متعلق فلاسفہ اور متکلمین نے جو دھاندلی مچائی، تاریخِ مذاہب کے غواص اس سے بے خبر نہیں ہیں۔ اس دور میں اہلحدیث نے جس پامردی سے ان فتنوں کا مقابلہ کیا، وہ تاریخ کی ایک حقیقت ہے۔ قیدوبند کے مصائب اہلحدیث نے جس طرح برداشت کیے، وہ ایسی داستان نہیں جسے بھلایا جاسکے۔ یہ ہنگامہ دوسری صدی سے شرو ع ہوکر تقریباً آٹھویں صدی تک رہا۔ اس دور کے متکلمین اور فقہاء محدثین کی تصانیف میں اہلِ حدیث کا تذکرہ بڑی کثرت سے پایا جاتا ہے۔ اربابِ تاویل کے سامنے ظواہر نصوص پر اڑنا اور مخالفین سے نمٹنا آسان نہ تھا، لیکن اس وقت اہل حدیث نے یہ جنگ بڑی جواں مردی سے لڑی۔ مامون الرشید سے شروع ہوکر متوکل علی اللہ کی حکومت تک ان پر کیا گزری؟اسے تاریخ کے طالب علم خوب جانتے ہیں، اس دور کی ان کتابوں میں یہ مباحث موجود ہیں۔ اہلحدیث کا تذکرہ جس انداز سے آیا ہے، اس سے ظاہر ہے کہ یہ لوگ محض الفاظ کے حافظ اور فنکار نہیں، بلکہ ان کی نظر معانی کی روح او ران کے دُور رس عواقب پر رہی۔