کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 173
شہرستانی کےدونوں اقتباسات سے ظاہر ہے کہ اصحاب الحدیث ایک مکتبِ فکر ہے، جس نے احادیث کے متون اوراسانید کی حفاظت فرمائی، پھر اس پر فقہی تبویب فرمائی۔ فروع اور عقائد کی صحت پر استدلال فرمایا۔ شخصی آراء تو ان کے ہاں کوئی قیمتی چیز نہیں، اس لیے فقہائے عراق یا دوسرے فقہاء کی طرح ان لوگوں نے اپنی فقہ ایجاد نہیں فرمائی، تاکہ لوگ اس پر تقلیدی انداز میں اعتماد نہ کرنے لگیں، لیکن کتاب وسنت سے استنباط کی راہیں اور قیاس صحیح کے استعمال کی راہ کھولی۔ شخصی آراء پر نصوص ِ شرعیہ کی برتری کو واضح کیااور فقہ الحدیث کا بہت بڑا ذخیرہ اہل علم کےسامنے رکھ دیا۔ تاریخ کے امام اور تنقید کے مؤسس علامہ عبدالرحمان ابن خلدون(808ھ) کا ایک اقتباس قابلِ غور ہے۔ فرماتے ہیں: ((وانقسم الفقه فيهم إلى طريقين طريق أهل الرأي والقياس وهم أهل العراق وطريقة أهل الحديث وهم أهل الحجاز وكان الحديث قليلا في أهل العراق لما قدمناه، فاستكثروا من القياس ومهروا فيه فلذلك قيل أهل الرأي ومقدم جماعتهم الذي استقر المذهب فيه وفي أصحابه: أبو حنيفة)) (مقدمہ ابن خلدون، ص:389) ”فقہ کی دو قسمیں ہوگئیں، فقہ اہل الرائے جن کامرکز عراق ہے اور فقہ اہلحدیث جن کا مرکز حجاز ہے۔ اہل عراق میں حدیث کا چرچا کم تھااور وہ قیاس میں ماہر تھے، ان کے امام حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ “ ابن خلدون کا تاریخی مقام پڑھے لکھے لوگوں سے مخفی نہیں۔ ان کے ارشادات سے ظاہر ہے کہ اہلحدیث کو محض حفظِ حدیث تک محدود رکھنا تاریخ سے بہت بڑی بے خبری ہے یاعصبیت کی وجہ سے دیانت میں نقص! اسی طرح ایک اقتباس علامہ ابوالمنصور عبدالقاہر البغدادی(429ھ) کا گزر چکا ہے۔