کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 172
اس کے بعد فرماتے ہیں:
((أصحاب الرأي وهم أهل العراق هم أصحاب أبي حنيفة النعمان بن ثابت بن من أصحابه: محمد بن الحسن وابو يوسف يعقوب بن محمد بن محمد القاضي وزفر بن هذيل والحسن بن زياد الؤلؤي وابن سماعة وعافية القاضي وابو مطيع البلخي والبشر المريسي وإنما سموا أصحاب الرأي لأن أكثر عنايتهم بتحصيل وجه من القياس والمعنى المستنبط من الأحكام وبناء الحوادث عليها وربما يقدمون القياس الجلي على أخبار الآحاد)) (شہرستانی:2/42)
”اہل عراق کو اصحاب الرائے کہا جاتا ہے۔ یہ امام ابوحنیفہ اور ان کے تلامذہ ہیں۔ انہی میں امام محمد، امام ابویوسف قاضی، زفر، حسن بن زیاد، ابن سماعہ، قاضی عافیہ، ابومطیع بلخی او ربشر مریسی وغیرہ شمار ہوتے ہیں۔ انھیں اصحاب الرائے اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان کی زیادہ ترتوجہ قیاس اور معانی کے استنباط کی طرف ہے۔ وہ احکام کی بنا قیاس پر رکھتے ہیں اور بسا اوقات قیاس جلی کے سامنے خبر واحد کی بھی پروا نہیں کرتے۔ “
حجۃ اللہ کا مقام” باب الفرق بين أهل الحديث وأهل الرأي“ شہرستانی كے اس مقام کی شرح معلوم ہوتی ہے۔ ہمارا مقصد اس وقت اس جہالت آمیز غلط فہمی کی اصلاح ہے، جو بعض علمی حلقوں کی طرف سے پھیلائی گئی ہے کہ”اہلحدیث محض فنی خدمت کا نام ہے“ شہرستانی کی عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دونوں قدیم مکتبِ فکر ہیں، جو اختلاف کے باوجود ایک دوسرے سے استفادہ کرتے، ان کا باہم ردوتردید کا مشغلہ تو رہا ہے، مگر کسی نے ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کی۔