کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 171
جس میں تفقہ اور اجتہاد کی بنیاد کتاب وسنت اور سلف ِاُمت کے ارشادات پر رکھی گئی ہے۔ تقلید شخصی اور جمود کے لیے اس مسلک میں کوئی کام نہیں۔
شہرستانی(548ھ) دورِ جمود کے آغاز سے بہت قریب ہیں۔ فرق اور مذاہب کے اجتماع اور افتراق پر ان کی نظر غائر اور وسیع ہے، ان کی کتاب”الملل والنحل“اس موضوع کی مستند دستاویز میں شمار کی جاتی ہے۔ ان کی تصریحات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اہلحدیث ایک مکتب فکر ہے، جسے فقہی مکاتب میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہ محض حدیث کی خدمت کا نام نہیں:
((ثم المجتهدون من أئمة الأمة محصورون في صنفين لا يعدوان إلى ثالث أصحاب الحديث وأصحاب الرأي. أصحاب الحديث هم أهل الحجاز وأصحاب مالك بن أنس وأصحاب محمد بن إدريس الشافعي وأصحاب سفيان الثوري وأصحاب أحمد بن حنبل وأصحاب داؤد بن علي بن محمد الأصفهاني وإنما سموا أصحاب الحديث لأن عنايتهم بتحصيل الأحاديث ونقل الأخبار وبناء الأحكام على المنصوص ولا يرجعون إلى القياس الجلي والخفي ما وجدوا خبرااواثرا )) (الملل والنحل:2/25 برحاشیہ کتاب الفصل لابن حزم)
”ائمہ مجتہدین کی دو ہی قسمیں ہیں: اصحاب الحدیث اور اصحاب الرائے۔ اصحاب الحدیث کا مسکن حجاز ہے۔ امام مالک اور ان کے تلامذہ، امام شافعی اور ان کے شاگرد، سفیان ثوری اور ان کے رفقاء امام احمد کے ساتھی اور امام داؤد ظاہری کے خدام۔ انھیں اہلحدیث اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان کی توجہ حدیث اور اخبار کی طرف ہے اور احکام کی بنیاد نصوص پر رکھتے ہیں، جب تک حدیث موجود ہو، وہ قیاس جلی اور خفی کی پروا نہیں کرتے۔ “