کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 170
کے اَتباع اورمقلدین گواہلحدیث نہ کہلاسکیں۔ 3۔ اہلحدیث قیاس جلی اور نظائر کے حکم کو مانتے ہیں اور اجتہاد واستنباط کے قائل ہیں۔ 4۔ اہلحدیث اور اہل ظاہر دو مختلف مکتب فکر ہیں، اور اہل الرائے ان دونوں سے الگ ہیں۔ 5۔ اہلحدیث کتاب وسنت کے علاوہ صحابہ اور سلف کے ارشادات کو اصل سمجھتے ہیں اور اس پر اپنے فہم اور استنباط کی بنیاد رکھتے ہیں۔ 6۔ اہل الرائے مسائل کے استنباط میں مخصوص اہل علم کے اصولوں کو پیشِ نظر رکھتے ہیں، کتاب وسنت ان کے پیش نظر نہیں ہوتے۔ 7۔ اہلحدیث مکتب فکر اہل الرائے اور اہل ظاہر کے علاوہ ہے۔ شاہ صاحب نے اس قسم کی تصریحات حجۃ اللہ کے علاوہ تفہیمات، انصاف اور عقد الجید وغیرہ میں بھی فرمائی ہیں۔ شاہ عبدالعزیز صاحب نے فتاویٰ عزیزیہ اور تفسیر فتح العزیز میں اسی موضوع پر بہت کچھ لکھا ہے۔ صراط مستقیم میں حضرت سید احمد شہید نے بھی جمود اور مروجہ تقلید کے متعلق کا فی وضاحت فرمائی ہے، ان تصریحات کی تائید شاہ اسماعیل شہید نے بھی فرمائی ہے۔ علامہ شوکانی نے ”القول المفید“میں بقدرِ ضرورت تفصیل کے ساتھ ائمہ حدیث کے مسلک کی وضاحت فرمائی ہے۔ ((إيقاظ همم أولي الأبصار)) میں امام یحییٰ فلانی نے بھی محدثین کے مسلک کی تائید فرمائی ہے۔ اسی طرح حافظ ابن قتیبہ نے((تاويل مختلف الحديث في الرد علي اعداء اهل الحديث)) میں فرمایا۔ ابن عبدالبر نے((جامع بيان العلم وفضله))میں اہل الرائے اور اہلحدیث کا تذکرہ فرمایا ہے اور مسلک اہلحدیث کو راجح اور صحیح تصور کیا ہے۔ ان تصریحات کے لیے وقت اور کسی دوسری صحبت کی ضرورت ہے۔ حقیقت پسند آدمی ان تصریحات کا مطالعہ کرے تو اسے یقین ہوگا کہ اہلحدیث محض حفاظ حدیث کا نام نہیں، بلکہ ان حضرات کاطریقِ فکر ہے