کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 169
اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ اہلِ حدیث محض فن کے حفاظ کا نام نہیں، بلکہ ان کے نزدیک فہم واستدلال کےلیے کچھ اصول ہیں، جو کتاب وسنت سے ہی ماخوذ ہیں اور وہ تقلیدی نہیں، بلکہ ان میں یقین اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
پھرفرماتے ہیں:
”میں نے سنا ہے کہ گروہ صرف دو ہیں:اہلِ ظاہر اور اہل الرائے۔ تیسرا کوئی گروہ نہیں۔ جو بھی قیاس کرے اور استنباط کرے، وہ اہل الرائے ہے، یہ قطعاً غلط ہے۔ رائے سے مراد عقل اور فہم نہیں، کیونکہ اس کے سوا تو اہل علم کے لیے کوئی چارہ ہی نہیں اور نہ اس سے وہ رائے مراد ہے جس کا کتاب وسنت سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ یہ تو کوئی مسلمان پسند ہی نہیں کرسکتا، اور نہ رائے استنباط اور قیاس پر قدرت ہی کا نام ہے، کیونکہ امام احمد، اسحاق بلکہ امام شافعی قیاس اور استنباط فرماتے ہیں، لیکن وہ بالاتفاق اہل الرائے نہیں ہیں، بلکہ اہل الرائے سے مراد وہ حضرات ہیں جو اجماعی اور جمہور ائمہ میں متفقہ مسائل کےعلاوہ متقدمین سے کسی متعین بزرگ کے اصولوں پر استنباط اور تخریج فرماتے ہیں اور نظائر کو نظائر پر محمول فرماتے ہیں اور معینہ اصولوں کی طرف رجوع فرماتے ہیں، اور اس کے لیے احادیث وآثار کے تتبع کا تکلف نہیں فرماتے۔ ظاہری علماء حافظ ابن حزم اور داؤد ظاہری حضرات قیاس اور آثار دونوں کو حجت نہیں سمجھتے اور محققین اہل سنت، اہل الرائے اور اہلِ ظاہر کے بین بین ہیں۔ “[1]
شاہ صاحب کے اس ارشاد سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں:
1۔ اہلحدیث صرف اہل فن نہیں، بلکہ یہ ایک مکتبِ فکر ہے۔
2۔ فقہائے کوفہ کے علاوہ باقی ائمہ اجتہاد اہلحدیث ہی سے تعلق رکھتے ہیں، ان
[1] ۔ حجة الله البالغة (1/129)