کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 168
غورفرماتے ہیں۔ ائمہ اربعہ کے اجتہادات سے موافقت ہویا مخالفت، اس کے لیے وہ چنداں فکر مند نہیں ہوتے، بلکہ ان کی نظر مصالح پر ہوتی ہے۔ شاہ صاحب نے حجۃ اللہ میں ایک باب کا عنوان ہی یہ رکھا ہے:”باب الفرق بين أهل حديث وأهل الرأي عنوان سے ظاہر ہے کہ دو مکتب فکر کا تذکرہ ہوگا۔ پھر اہلحدیث کےچند اصول [1] ذکر فرمانے کے بعد لکھتے ہیں: (( فان عجزوا عن ذلك أيضا تاملوا في عمومات الكتاب والسنة وايماءاتها واقتضاءاتها وحملوا نظير المسئلة عليها في الجواب إذا كانتا متقاربتين بادي الرأي لا يتعمدون في ذلك على قواعد من الأصول ولكن على ما يخلص إلى الفهم ويثلج به الصدر كما أنه ليس ميزان التواترعدد الرواة ولاحالهم ولكن اليقين الذي يعقبه في قلوب الناس كما نبهنا على ذلك في بيان حال الصحابة )) (حجۃ اللہ:1/ 119) ”اگر سابقہ اصولوں کے مطابق مسئلہ طے نہ ہوسکے تو کتاب وسنت کے ارشادات واقتضاء کو دیکھتے اور پیش آمدہ مسئلہ کے نظائر اور ان کے حکم پر غور کرتے اور جواب تلاش کرتے ہیں۔ جب وہ نظائر صراحتاً متقارب ہوں تو اصولِ فقہ کے قواعد کو چنداں ملحوظ نہیں رکھتے۔ بلکہ قلبی سکون اور طمانیت کو ملحوظ رکھتے ہیں، جیسے تواتر میں اصل چیز عددِ رواۃ نہیں، بلکہ اصل چیز یقین اور اطمینان ہے۔ “
[1] ۔ ان اصول کا ذکر شروع میں آچکا ہے۔ جماعتِ اسلامی اور اس کے ہمدرد حضرات نے گذشتہ ایام میں اس مغالطے کی کافی اشاعت فرمائی تھی۔ ممکن ہے جماعت کے لیے یہ مغالطہ مفید ہو۔ علمی اور تحقیقی طور پر یہ قطعاً غلط ہے۔ تاریخی شواہد اس کے خلاف ہیں۔ (مؤلف)