کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 167
پڑھے لکھے حضرات کو اس میں مبتلا پایاگیا ہے، وہ یہ ہے: ”اہلحدیث کوئی مکتبِ فکر نہیں، بلکہ حفاظِ حدیث اور اس فن کے ماہرین کو اہلحدیث کا نام دیا گیا ہے۔ “ اس مغالطے کی حمایت ہمارے ملک کی بعض تحریکات نے بھی کی ہے اور بعض کم سواد حضرات نے بھی اپنی تحریروں میں اس خیال کا اظہار فرمایا۔ اس کے دو ہی سبب ہیں: قلت ِ مطالعہ یا پھر تعصب کے ساتھ سیاہ دلی!! اس میں کچھ شک نہیں کہ فنِ حدیث اور اس کے حفظ وضبط کا دل پسند مشغلہ مذاہب اربعہ میں رہا ہے اور ان مکاتب فکر کے علماء نے فن حدیث اور اس کے خوادم فن رجال، اصولِ حدیث وغیرہ کی خدمت کی، لیکن یہ حضرات اس خدمت کے باوجود فہم حدیث کے معاملے میں اپنے ہوش روامام ہی کے انداز سے سوچتے ہیں، جیسے حافظ طحاوی، علامہ ترکمانی، حافظ بیہقی، حافظ بدرالدین عینی، حافظ ابن حجر عسقلانی۔ یہ حضرات حدیث کی بہترین خدمت کے باوجود طریق فکر کےلحاظ سے یاحنفی ہیں یا شافعی، اسی طرح موالک اورحنابلہ میں بھی ایسے خدام ِ حدیث موجود ہیں، جو فکر کے لحاظ سے مالکیت یا حنبلیت کے پابند ہیں۔ وہ احادیث کے مفہوم کو سوچتے وقت اپنے ائمہ کی حدود سے آگے نہ بڑھ سکے۔ بلکہ ان کے تحقیقی ارشادات پرغورفرمائیے تو اپنے مخالفین کے خلاف بعض اوقات خاصا تشدد نظر آئے گا، اس کے باوجود وہ حدیث کے خادم ہیں۔ اہلِ حدیث مکتب فکر: لیکن اہلحدیث مکتب فکر اس سے بالکل مختلف ہے۔ یہ وہ جماعت ہے جو اپنے انکار میں ان شخصی پابندیوں سے آزاد ہے۔ وہ مجتہد ہوں یا نہ ہوں، لیکن وہ شخصی اجتہادات کے پابند نہیں، بلکہ ان بزرگوں کے لیے مواد اور دلائل فراہم فرماتے ہیں۔ خود بھی پیش آمدہ مسائل پر کتاب اللہ اور سنت اور ائمہ سلف کے ارشادات کی روشنی میں