کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 166
حدیث کے موافق ہوہم اس پر عمل کرتے ہیں۔ “
آج کل کی تلخیوں اور ان کے پسِ منظر کو نظر انداز کردیاجائے تو ہندوستان میں مسلکِ اہلحدیث کا مقصد اسی نوعیت کا اتفاق تھا، جسے فرقہ وارانہ عصبیت نے ہیبت ناک صورت دے دی، آج ایک آزاد ملک میں تقلیدِ شخصی اورفقہی جزئیات پرزوردیا گیا یا حکومت پر زور دیاگیا کہ وہ صرف حنفیت کو اسلام کا مرادف سمجھے تو اس کے نتائج اسلام کے لیے اور مسلمانوں کے لیے اچھے نہیں ہوں گے۔ فتاویٰ عالمگیری اپنے وقت کا بہت بڑا دینی اور علمی کارنامہ ہے، جس کی تشکیل اور تاسیس میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ صاحب کے والد حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم رحمہ اللہ صاحب بھی شامل تھے، لیکن حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کی دور اندیش نگاہ آنے والے فتنوں کے لیے اسے کافی نہیں سمجھتی۔ وہ ان فقہی استحسانات کو دین اور شریعت کا نام دینا اور اصولِ فقہ کو شرعی دستاویز قراردینا پسند نہیں کرتے۔
ان کا منشا یہ ہے کہ مذاہب اربعہ کے علاوہ فقہاء محدثین کی راہ کو بھی ان کے ساتھ ملاکر ملک میں ایک ایسے فقہی مکتب فکر کی بنیاد رکھی جائے، جس میں نہ حافظ ابن حزم کی ظاہریت ہو جس سے نصوص میں بھدا پن پیدا ہواورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کی فصاحت وبلاغت اور حسنِ ادا نظر انداز ہوجائے، اور نہ قیاس اوررائے کو اس قدر اہمیت حاصل ہو کہ قوتِ فیصلہ علماء کی موشگافیوں اور حیل آفرینیوں کے ہاتھ میں چلی جائے، اور نصوصِ شرعیہ اس حیران کن منظرمیں صرف تماشائی ہوکر رہ جائیں، جیسے متاخرین فقہا نے فرضی صورتوں سے دین کا نیا محل تعمیر فرمادیا۔ قاضی خان، شامی اورالاشباہ والنظائر، ان کے سامنے ان علوم اور ان کی ہمہ گیر تعلیمات انگشت بدنداں ہوکر رہ گئیں۔
ایک بہت بڑا مغالطہ اور اہلحدیث:
کچھ مدت سے عوام میں ایک مغالطے کی اشاعت ہورہی ہے او راچھے سنجیدہ اور