کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 164
ہے، اور ائمہ پر کوئی چیز مخفی نہ تھی، ان کو اس حدیث کا علم ضرور ہوا ہوگا اور کوئی وجہ از قسم نسخ اور مرجوحسیت ضرور ہوگی، ورنہ وہ ضرور اس پر عمل کرتے۔ “ شاہ صاحب ائمہ کا احترام فرماتے ہیں، لیکن ان کی علمی وسعت کے باوجود ان پر اس طرح اعتماد اور حسن ظن کو پسند نہیں فرماتے، جس سے صحیح حدیث کو نظر انداز کرنے کی نوبت آجائے۔ مروجہ تقلید میں یہی عیب ہے جو شاہ صاحب کے کے ذہن میں کھٹک رہاہے۔ وہ طلبا کو نصیحت فرماتے ہیں کہ حدیث کے متلق انھیں اس سطح سے اونچے ہو کر غور کرنا چاہیے۔ شاہ صاحب کا اپنا مسلک: سابقہ نظریے سے ظاہر ہے کہ شاہ صاحب ضروری سمجھتے ہیں کہ عوام علما کی اطاعت و اتباع کریں، لیکن نہ اس میں پیغمبر کی طرح کسی شخص کا تعین ہو اور نہ جمود کی روح سرایت کرنے پائے۔ شاہ صاحب نے حجۃ اللہ البالغہ اور مصفی میں اہل حدیث اور اہل الرائے کا ذکر فرمایا ہے۔ اس تفصیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاہ صاحب کی نظر میں ائمہ کوفہ کے سوا باقی ائمہ اہل حدیث ہیں۔ وہ اپنے اساطین اور اساتذہ کے قواعد کی بجائے استدلال اور اجتہاد کی بنیاد کتاب و سنت پر رکھتے ہیں۔ لیکن جہاں تک عوام شوافع، موالک اور حنابلہ کا تعلق ہے وہ بہر حال وہ کچھ ہیں جو شاہ صاحب کو کسی طرح بھی پسند نہیں، جہاں جمود بھی ہے اور عصبیت بھی۔ ابو بکر محمد بن عبد اللہ بن محمد(ابن العربی) کے مقام کی رفعت دیکھیے اور امام شافعی کے متعلق ان کے لب و لہجہ کی تلخی دیکھیے(ملاحظہ ہو ان کی احکام القرآن)[1]تعصب کے سوا اس کی اور کیا تعبیر ہو سکتی ہے؟تمام مذاہب میں یہ عصبیت اور تلخی تقریباً ملتی ہے۔ اس لیے شاہ صاحب نے سابقہ نظریے پر عمل کے لیے ایک اور راہ اختیار فرمائی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس وقت اس کے سوا کوئی دوسری راہ ہے بھی نہیں
[1] ۔ احكام القرآن لابن العربي (1/274، 410)