کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 163
کو مباح سمجھا جائے اور معاملہ اس سے آگے نہیں جانا چاہیے۔ “
شاہ صاحب نے حنفیت کی کثرت ہندوستان میں دیکھی اور شوافع کی اکثریت انھیں حجاز میں نظر آئی، اس لیے انھوں نے ان دونوں میں اتحاد کی ضرورت کو محسوس فرمایا: اگر شاہ صاحب نجد اور سوڈان میں حنبلیہ اور مالکیہ کو ملاحظہ فرمالیتے تو ان ہی وجوہ کی بنا پر ان کو بھی ان کے ساتھ ملا دیتے اور ان کے ساتھ اتحاد کو ضروری سمجھتے۔ اگران مسالک میں اتحاد دین کے کسی تقاضے کو پورا کر سکتا تو مذاہب اربعہ میں اتحاد کی کوشش اور آرزو یقیناً اس تقاضے کو پورا کرے گی، اور شاہ صاحب ان مصالح کو اسلام کی روح تصور فرماتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فقہی افکار کا جمود شاہ صاحب کےذہن پر ایک بوجھ ہے جس کے لیے وہ بے حد متفکر ہیں۔
طلبا کو نصیحت اور علوم دین اور علوم دنیا میں تمیز فرماتے ہو ئے ارشاد فرماتے ہیں:
((خضتم کالخوض في استحسانات الفقہاء من قبلكم، أن الحكم ما حكم الله ورسوله ورب إنسان منمكم يبلغه حديث من أحاديث نبيكم فلا يعمل به ويقول إنما العمل به مذهب فلان لا على الحديث ثم اختال بأن فهم الحديث والفقهاء به من شأن الكمل المهرة وإن أئمة لم يكونون ممن يخفى عليهم هذا الحديث فما تركوه إلا لوجه ظهر لم في الدين من نسخ ومرجوحية)) (تفهيمات ج1 ص214))
”تمهاری توجہ پوری طرح فقہا کے استحسانات اور تفریعات کی طرف ہے، اور تم نہیں جانتے کہ در حقیقت حکم تو اللہ تعالیٰ کا ہے اور اس کے رسول کا۔ تم میں سے بہت سے لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پہنچ جاتی ہے، لیکن وہ اسے اس لیے قابل عمل نہیں سمجھتا کہ اس کا عمل فلاں مذہب پر ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ حدیث پر عمل کرنا تو ماہرین اور اصحاب کمال کا کام