کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 161
متعلق جو غلطی بھی کرتا ہو اور صحیح بھی کہتا ہو، یہ عقیدہ رکھنا کہ اس کی اطاعت ضروری ہے اور جسے وہ واجب کہے، اسے واجب سمجھنا ضروری ہے، یہ قطعاً کفر ہے، کیونکہ شریعت اس شخص سے مدتوں پہلے سے موجود ہے۔ علما نے اسے حفظ اور ضبط کیا اور رواۃ نے اسے بیان کیا۔ فقہانے اس کے مطابق فیصلےفرمائے۔ لوگوں نے علما کی تقلید کو صرف اس لیے متفقہ طور پر قبول کیا کہ وہ در حقیقت شریعت کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی ہیں۔ علم ان کا مشغلہ ہے اور وہ ہم سے زیادہ جانتے ہیں، لیکن اگر حدیث صحیح ہو، محدثین اس کی صحت کے شاہد ہوں، عامۃ المسلمین نے اس پر عمل کیاہو، معاملہ واضح ہو چکا ہو، پھر اس پر صرف اس لیے عمل نہ کیا جائے کہ امام یا متبوع نے اس کے مطابق فتویٰ نہیں دیا تو یہ بڑی گمراہی ہے۔ “
شاہ صاحب کا ارشاد کسی حاشیہ آرائی کا محتاج نہیں۔ وہ تقلید کے صرف اس حد تک قائل ہیں کہ اہل علم کتاب و سنت سے روایت کرتے ہیں۔ علمی مشاغل کی وجہ سے ان کی معلومات زیادہ ہیں۔ عوام ان کی معلومات سے استفادہ کر سکیں۔ صحیح حدیث کا علم جب صحیح کے ہوتے ہوئے کسی عالم کے لیے تعصب یا اس کی حمایت کے لیے تاویل کے دروازوں کا کھول دینا شاہ صاحب کی نگاہ میں بہت بڑی گمراہی ہے۔ اس انداز کو وہ کسی طرح بھی پسند نہیں فرماتے۔
اس مقصد کے لیے دوسری راہ:
شاہ صاحب کی تجویز یہ ہے کہ اس فقہی جمود کو توڑنے کے لیے مختلف مسالک کو باہم آمیز کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ مصالح اور ان کے تقاضوں کی روشنی میں بعض مسائل میں حنفی مسلک فکر اختیار کیا جائے اور بعض میں شافعی مسلک کو قبول کر لیا جائے۔ فرماتے ہیں: