کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 160
ائمہ کی تقلید اور ان کی اطاعت کا مسئلہ اپنی جگہ پر قابل بحث ہے۔ اگر مروجہ تقلید کے جواز میں کوئی سہارا مل جائے تو ائمہ رحمہم اللہ کے نام پر یہ تفریق کبھی درست نہیں ہوسکتی۔ برقوق جیسے مسرف بادشاہ سے یہی اُمید ہوسکتی تھی۔ تفریق بین المومنین کا مزید بوجھ اس کی گردن پر ہوگا اور اسی طرح ان علما پر جنھوں نے اسے سند جواز عطا کی۔ ﴿وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ﴾ (الشعراء:227) شاہ صاحب کا مقصد: اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر جمود غلط ہے تو پھر صحیح کیا ہے؟شاہ صاحب موجودہ حالات میں کیا تبدیلی چاہتے ہیں؟قیاس اور رائے پرستی بھی انھیں پسند نہیں اور ظواہر پرستی بھی ان کی نگاہ میں معیوب ہے تو پھر وہ کیا ہے جسے پسند کیا جائے؟ اس معاملے میں شاہ صاحب اپنا عندیہ حلف مؤکد کے ساتھ بیان فرماتے ہیں: ((وأشهد للّٰه باللّٰه أنه كفر بالله أن يعتقد في رجل من الأمة ممن يخطيئ ويصيب أن اللّٰه كتب على اتباعه حتما وأن الواجب علىه هو الذي يوجبه هذا الرجل على ولكن الشريعة الحقة قد ثبت قبل هذا الرجل بزمان قد وعاها العلماء وأداها الرواة وحكم بها الفقهاء وإنما اتفاق الناس على تقليل العلماء على معنى أنهم رواة الشريعة عن النبي صلى الله عليه وسلم وأنهم علموا ما لم نعلم وأنهم اشتغلوا بالعلم ما لم نشتغل فلذلك قلدوا العلماء فلو أن حديثا صح وشهد لصحتها المحدثون وعمل به طوائف وظهر فيه الأمر ثم لم يعمل به هؤلاء لأن متبوعه لم يقل به فهذا هو الضلال البعيد ))[1] ”میں اللہ کے لیے اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ اُمت میں کسی ایسے آدمی کے
[1] ۔ تفهيمات (1/211)