کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 159
بے پروا ہو کربیٹھےرہتے، گویا یہ اذان اور نماز ان کے لیے قائم ہی نہیں ہوئی۔ [1]یہی حال ان کے ساتھ احناف کرتے۔ حرم کعبہ میں اس بدعت کے احداث سے ساری دنیائے اسلام میں اس کا اثر ہوا۔ ائمہ کے اَتباع ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب اس کے متعلق فرماتے ہیں: ”وخدائے تعالیٰ بے خبر نیست از آنچہ درزمان آیندہ عمل خواہید کردواز راہ بدعت یک یک جہت از جہات کعبہ تقسیم خواہیدودر ترجیح و تفصیل جہت مختار خود ہر کس خواہدآورو، مثلاً حنفیہ جہت جنوب را اختیار خواہند کرد وامام ایشاں جانب شمال کعبہ خواہند استاد و در مقام خواہند گفت کہ قبلہ ما قبلہ ابراہیمی است زیر آنکہ آنجناب جانب میزاب متوجہ می شدند، و شافعیہ غرب را اختیار خواہند کردو امام ایشاں در شرق کعبہ خواہد استاد و در مقام فخر خواہند گفت یا استقبال باب سےنمائیم و قبلہ ما قبلہ منصوص“ (تفسير فتح العزيز1/541) ”اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ تم آئندہ ایک بدعت کرو گے اور اطراف کعبہ کو تقسیم کر کے اس پر فخر کرو گے۔ احناف جنوب کی طرف کھڑے ہوں گے، ان کا رخ شمال کی طرف ہو گا، وہ فخر کریں گے کہ ہمارا قبلہ ابراہیمی ہے۔ شوافع مغرب کی طرف کھڑے ہو کر مشرق کی طرف رخ کریں گے اور فخر سے کہیں گے کہ ہمارا قبلہ میزاب کے سامنے ہے، یہی سمت مخصوص ہے۔ “ شاہ صاحب ان مصلّوں کی تقسیم کو بدعت سمجھتے ہیں اور اسلام میں اس تقسیم کو ناپسند فرماتے ہیں۔
[1] ۔ شکر ہے کہ بیت اللہ کی جدید تعمیر میں سلطان سعود بن عبدالعزیز نے یہ مصلے بالکل ختم کردیے ہیں۔ اب لوگ ایک ہی امام کی اقتدا کرتے ہیں، مختلف جماعتیں ہوتیں۔ اب یہ بدعت ختم ہو گئی ہے۔ والحمدلله رب العالمين(مولف)