کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 158
”ان مسائل میں کوئی واجب العمل اور قابل اعتماد چیز نہیں ہے۔ “
پھر فرماتے ہیں:
((وقد أطال القوم في فروع موت الحيوان في البئر والعشر في الشعر والماء الجاري ليس في كل ذلك حديث عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم )) (حجۃ اللہ : 1/147))
”کنویں میں جانور مرنے اور دہ در دہ اور مائے جاری کے مسائل میں علما نے طویل گفتگو کی ہے، لیکن ان میں کسی کے متعلق بھی قطعاً کوئی حدیث نہیں ہے۔ “
حجۃ اللہ، مصفےٰ اور مسویٰ میں اور بھی کئی فروعی مسائل ہیں، جن میں شاہ صاحب نے نہایت ہی وسعت ظرف سے اپنا رجحان فقہائے حدیث اور شوافع کی طرف فرمایا ہے، جس سے ظاہر ہے کہ خشک حنفیت اور جامد عصبیت کو شاہ صاحب قطعاً پسند نہیں فرماتے، اور نہ قدمائے احناف میں اس قسم کا جمود پایا جاتا تھا۔ یہ جمود چوتھی صدی سے شروع ہو کر آٹھویں نویں صدی تک عروج پر پہنچا۔ بدعت سے روکنے کی اصل راہ اتباع سلف ہے، آئمہ کی تقلید نے بھی بدعت کی راہ میں رکاوٹ پیدا کی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ عقیدت مندی کا جمود آگیا۔ اتباع سلف اور صحابہ کی مختلف رائیں اور ان کے فتوؤں میں مصالح کی بنا پر تنوع ہے، اس لیے وہاں جمود نہیں آسکتا۔
چار مصلّے:
برقوق چرکسی نے حرم بیت اللہ میں ائمہ اربعہ کے نام سے چار مصلے قائم کیے تھے۔ غالباً یہ عمل 708 ھ کے پس و پیش میں ہوا۔ اس وقت بھی علمائے حق نے اس تفریق کی مخالفت کی، لیکن حکومت اس تفریق کے احترام پر مصر رہی، یہ تفریق یہاں تک بڑھی کہ علی العموم ایک دوسرے کی اقتدا متروک ہو گئی۔ حنفی جماعت ہو رہی ہو تو شوافع اور حنابلہ