کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 156
شاہ صاحب فرماتے ہیں:
((واختلف الأحاديث ومذاهب الصحابة والتابعين في قنوت الصبح وعندي أن القنوت وتركه سيان ومن لم يقنت إلا عند حادثة عظيمة أو كلمات يسيرة إخفاء قبل الركوع أحب إلى لأن الأحاديث شاهدة على أن الدعاء على رعل وذكوان كان أولا ثم ترك وهذا إن لم يدل على نسخ مطلق القنوت لكنها تؤمي إلى أن القنوت ليس سنة مستقرة. )) [1]
”صبح کی قنوت کے متعلق احادیث اور صحابہ و تابعین کے مذاہب مختلف ہیں(شاہ صاحب فرماتے ہیں)قنوت پڑھنا دونوں برابر ہیں، اور اہم حوادث پر چند کلمات پڑھنا مجھے زیادہ پسند ہے، کیونکہ احادیث سے ثابت ہے کہ قبیلہ رعل و ذکوان پر بددعا ترک کردی گئی، اس سے گو علی الاطلاق قنوت کا ترک ثابت نہیں ہوتا، لیکن اس سے یہ واضح ہے کہ یہ مستقل اور دائمی سنت نہیں۔ “
جمع بین الصلاتین:
عذر کی وجہ سے نماز جمع کرنے کے متعلق ائمہ میں اختلاف ہے۔ فقہائے احناف نہ جمع تقدیم کے قائل ہیں نہ جمع تاخیر کے، اور جمع صوری دراصل جمع ہی نہیں بلکہ جمع کی صورت ہے۔
شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ نماز کے دراصل تین وقت ہیں۔ عصر ظہر سے نکال لی گئی اور عشاء مغرب سے اخذ کر لی گئی، تاکہ دو نمازوں میں فاصلہ کم ہو اور نیند سے پہلےہی ذکر سے غفلت نہ ہو:
(( فشرع لهم جمع التقديم والتاخير لكنه لم يواظب عليه ولم
[1] ۔ حجة الله البالغة (ص:436)