کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 152
کہ دراصل ان جدلیات کے بانی معتزلہ ہیں۔ “
اس کے بعد اصول فقہ کے متعدد قواعد اور ان کا حدیث کے انکار میں جو اثر پڑتا ہے، ذکر فرمایا ہے۔ پھر پورے جلال کے ساتھ ان قواعد پر معارضات عائد فرمائے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ احناف خود بھی ان قواعد کے پابند نہیں۔ یہ بحث کئی صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ حق پسند طالب علم کو ان مقامات کا مطالعہ پورے غور سے کرنا چاہیے۔
اس وقت گزارش کا مطلب یہ ہے کہ شاہ صاحب جس طرح فقہی جزئیات کو دین اور شریعت نہیں سمجھتے، اسی طرح وہ اصول فقہ کو بھی لازوال اور دائمی نہیں سمجھتے۔ یہ محض علمی کوششیں ہیں، جو علماء نے اپنے مسالک کو بچانے کے لیے کی ہیں، نہ فروع کے انکار سے کفر لازم آتا ہے نہ اصول فقہ کے انکار سے دیانت میں خلل لازم آتا ہے۔
فروع کے متعلق شاہ صاحب کی روش:
حضرت شاہ ولی اللہ صاحب اور ان کے رفقا عقائد اصول اور فروعی مکاتب فکر کے التزام میں کسی طرح جمود کو پسند نہیں فرماتے۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ کسی پابندی کے بغیر مذاہب اربعہ اور ائمہ حدیث کے مسائل پر عمل کیا جائے۔ بظاہر حنفی ہونے کے باوجود وہ محدثین اور شوافع کے معمولات کو ترجیح دیتے اور پسند فرماتے ہیں۔
اس وقت ابنائے دیوبند سے بڑی کثرت شاہ صاحب اور ان کے خاندان کے ساتھ انتہائی عقیدت کا اظہار کرتی ہے، مگر اُن کی روش اور ان کا عمل شاہ صاحب، ان کے رفقا اور خاندان کے نظریات کے بالکل خلاف ہے۔ آج کا دیوبند، بریلویت سے چنداں مختلف نہیں۔ اختلافات لفظی قسم کے رہ گئے ہیں۔
آگے آنے والی گزارشات سے معلوم ہوگا کہ شاہ صاحب فروع میں کس قدر وسیع الظرف تھے اور دیوبند کی موجودہ پودمیں کس قدر تنگ ظرفی اور انقباض ہے؟وہ اپنے خلاف کوئی چیز سننا پسند نہیں کرتے اور شاہ صاحب شافعی مکتب فکر پر عمل سے پرہیز نہیں فرماتے۔