کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 149
مذہب کے موافق ہو یا مخالف، اللہ کی مرضی یہی ہے کہ تم کتاب و سنت کی اطاعت کرو۔ “الخ بظاہر شاہ صاحب فقہ حنفی سے مانوس ہیں، ان کا خاندانی مسلک عام طور پر فقہ عراقی ہے، لیکن شاہ صاحب چونکہ جمود اور اس توقیفی فقہ سے بیزار ہیں، اس لیے اس فقہی نظام پر بھرپور وار کرتے ہیں۔ (( قرۃ العینین)) میں شیخین (حضرت ابو بکر، حضرت عمر رضی اللہ عنہما )کے محاسن میں فرماتے ہیں کہ دراصل اختلاف شیخین کے بعد شروع ہوا: ”گویا اصل مذاہب اربعہ اجماعیات شیخین افتادہ، اماایں سخن بکسے کہ سر مایہ علم اوبجز قدوری ووقایہ باشدنتواں گفت۔ “(قرۃ العینین، ص:124) ”مذاہب اربعہ اجماعی مسائل شیخین ہی کے مرہون منت ہیں، لیکن یہ بات ان حضرات کی سمجھ میں نہیں آسکتی جن کے علم کا کل سرمایہ قدوری اور وقایہ ہے۔ “ دوسرے مقام پر اسی انداز سے فرماتے ہیں: ”ایں نکتہ کسے کہ سرمایہ فقہ اوشرح وقایہ و منہاج باشد نمے تو انددانست آں راعا لے متبحرباید۔ “(ص:135) ”یہ نکتہ شرح وقایہ اور منہاج وغیرہ پڑھنے والے فقہا کی سمجھ میں نہیں آسکتا، اس کے لیے متبحر عالم کی ضرورت ہے۔ “ شاہ صاحب کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ متون و شروح فقہ کو جو اعتماد و تفوق حاصل ہواہے، وہ ائمہ اور ان کتب کے مصنفین کے ساتھ محبت اور ان کے علوم پر یقین سے حاصل ہوا ہے۔ دراصل یہ اعتماد صحابہ اور خصوصاً شیخین پر ہونا چاہیے۔﴿ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ﴾ بالکل اسی انداز سے یہ تذکرہ ((ازالة الخفاء)) میں آیا ہے۔ شاہ صاحب کی نظرمیں یہ فقہی نظام اور یہ تقلید محض شخصی کوششیں ہیں، انھیں اساسی طور پر کوئی اہمیت نہیں۔ اس کے وجوب اور فرضیت کی بحث بے معنی اور لاحاصل ہے۔ یہ بزرگ عالم تھے، ان کے علوم سے ممکن طور پر استفادہ کرنا چاہیے۔