کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 145
بغیر نہ ہوسکا۔ 2۔ رؤسا کی جہالت اور علما کا حدیث اور تخریج سے نا آشنا ہونا۔ 3۔ دوراز کار فرضی مسائل میں تعمق، وغیر ذلک۔ اس کے نتائج کے متعلق شاہ صاحب فرماتے ہیں۔ ”اس کے نتیجے میں جہالت، اختلاط، شکوک اور اوہام پیدا ہو گئے، جس کی اصلاح کی کوئی امید نہیں رہی۔ پھر مدتوں خالص تقلید ہی ان کا شیوہ رہا اور حق و باطل کا امتیاز جاتا رہا۔ فقیہ محض جھگڑے اور باتیں بنانے کا نام رہ گیا اور محدث چند غلط سلط احادیث نقل کر دینے کا نام رہ گیا۔ “ آخری الفاظ سنیے: ((ولم يأت قرن بعذ ذلك إلا هو أكثر فتنة، وأوفر تقليدا، وأشد انتزاعًا للأمانة من صدور الرّجال، حتى اطمأنوا بترك الخوض في أصول الدين، وبأن يقولوا لنا وجدنا آباءنا على أمة وأإنا على آثارهم مقتدون، إلى الله المشتكى)) (حجۃ اللہ البالغۃ ج1 ص134 ) ان تصریحات کا نتیجہ: 1۔ اہل حدیث اور اہل الرائے دونوں مکتب فکر ہیں اور دونوں اہل علم میں رائج ہیں۔ 2۔ شاہ صاحب کے خیال میں اہل حدیث اور اہل الرائے اس آخری دور میں اپنی جگہ سے ہٹ چکے ہیں۔ 3۔ متاخرین اہل الرائے میں استدلال اور استنباط کی بجائے تقلید اور جمود آگیا ہے۔ یہ شاہ صاحب کی نظرمیں مناسب معلوم ہوتا ہے۔ 4۔ اہلحدیث نے بھی حدیث کی طرف بے توجہی کی ہے۔ وہ تقریباً اسے ایک رسم کے طور پر کر رہے ہیں۔ استنباط اور اجتہاد کے نقطہ نظر سے نہیں کرتے اور نہ تفقہ کی کوشش کرتے ہیں۔