کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 144
دوسرے گروہ (اہل الرائے) کے ذکر میں فرماتے ہیں: ”یہ لوگ سوالات کی کثرت اور فتوؤں سے نہیں گھبراتے، لیکن حدیث کی روایت سے گھبراتے ہیں۔ کہیں الفاظ میں کمی بیشی نہ ہو جائے، ان کا خیال ہے کہ دین کی بنیاد فقہ پر ہے، اس کی اشاعت ضروری ہے۔ “[1] آخر میں فرماتے ہیں: ”ان حضرات کی نظر میں فقہ، حدیث اور مسائل کی تدوین دوسرے طریق سے ہوئی، کیونکہ ان کے پاس حدیث اور آثار کا سرمایہ اس قدر نہیں تھا جس کی بنا پر وہ ان اصولوں پر اعتماد کر سکتے جن پر علمائے اہلحدیث نے اعتماد کیا ہے، نہ مختلف ممالک کے سابقہ علماکے اقوال ان کی نگاہ میں تھے، جس سے شرح صدر کے ساتھ استنباط کرتے اپنے اکابر پر انھیں بے حد اعتماد تھا، اس لیے وہ ان کے طے کردہ اُصولوں پر زیادہ یقین رکھتے تھے۔ غرض یہ حضرات استنباط میں کتاب و سنت کی جگہ اپنے گزشتہ بزرگوں کےارشادات پر اعتماد کرتے اور انہی کی روشنی میں مسائل کو حل فرماتے۔ [2] اس دور کے بعد معاملہ اور بھی بگڑ گیا اور ایک ایسا گروہ سامنے آگیا جس کا تذکرہ شاہ صاحب ان لفظوں میں فرماتے ہیں: ((ومنها أنهم اطمأنوا لتقليد ودب التقليد في صدورهم دبيب النمل وهم لا يشعرون))(حجة الله البالغة: 1؍ 123) ”وہ لوگ تقلید پر مطمئن ہو گئے اور تقلید ان کے رگ و ریشے میں پیوست ہو گئی۔ “شاہ صاحب نے اس انحطاط کی متعدد وجوہ لکھی ہیں: 1۔ فقہا کا باہم اختلاف اور مزاحمت، جس کا انقطاع کسی پہلے بزرگ کے حوالے کے
[1] ۔ حجة الله البالغة(1/37) [2] ۔ مصدرسابق