کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 140
سازی اور اسی قسم کی اصطلاحی تحریک نہیں ہوگا، بلکہ پرانا مفہوم ہوگا جس میں ایک شخص ایک سچائی کو لے کر اٹھتا ہے، پروانے خود بخود شمع کے اردگرد جمع ہوجاتے ہیں اور روشنی اپنا کام شروع کردیتی ہے۔ وقت کے اسباب ووسائل اپنی بساط کے مطابق استعمال ہونے لگتے ہیں۔ میری دانست میں مجدد صاحب رحمہ اللہ سے شروع ہوکر سید احمد شہید رحمہ اللہ اورشاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ تک کام کی نوعیت یہی رہی۔ ایک سپاہی کے دل میں ذمے داری کا احساس اور مقاصد کی تحصیل کے لیے اتنا ہی دردتھا، جس قدر کسی بڑے سے بڑے عہدے دار کو ہونا چاہیے، اور یہ احساس ہی کا میابی کا راز ہے۔
ولی اللّٰہی تحریک کا مزاج:
اس تحریک کے اہم عناصر مندرجہ ذیل ہیں:
حضرت شیخ احمد فاروقی مجدد الف ثانی، قاضی ثناءاللہ پانی پتی، حضرت مرزا مظہر جان جاناں، حضرت مولانا فاخر الٰہ آبادی، آزاد بلگرامی، حضرت مولانا شاہ ولی اللہ، مولانا شاہ عبدالعزیز، مولاناشاہ رفیع الدین، مولانا شاہ عبدالقادر، مولانا شاہ عبدالغنی، حضرت سید احمد شہید، مولانا شاہ اسماعیل، مولانا عنایت علی، مولانا ولایت علی، مولانا عبدالحئی بڈھانوی، ان میں بعض علماء حنفی ہیں، لیکن عقیدتاً اہل حدیث، بعض عمل وعقیدہ دونوں میں حنفی، بعض دونوں میں اہلحدیث، لیکن اس اختلاف کی نمائش ان حضرات نے کبھی نہیں فرمائی۔
قاضی ثناء اللہ صاحب کا تفسیر مظہری میں رجحان فقہ حنفی کی طرف ہے، لیکن بدعت کی مخالفت میں کوئی لچک نہیں۔ ارشاد الطالبین میں قبرپرستی اور قبور پر چراغاں اور انھیں چوناگچ کرنے کے متعلق ان کی رائے بہت واضح ہے۔ آج کے ارباب دیوبند کی طرح ان میں لچک اورمداہنت نہیں۔ آج بعض اکابردیوبند کے افکار کا رجحان زیادہ تر بریلویت کی طرف ہے۔ وہ اہلِ توحید اور اصحاب سنت سے زیادہ اہل بدعت کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔﴿اَللّٰهُ وَرَسُوْلُهُ أَحَقَّ أَنْ يُّرْضُوْهُ إِنْ كَانُوْا مُؤْمِنِيْنَ﴾