کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 139
نے فرمائی۔ ایران میں سید جمال الدین افغانی نے صور پھونکا، جس کی آواز مصر، اسکندریہ اور قسطنطنیہ تک پہنچی۔ تقریباً تھوڑی دیر پہلے ہندوستان کی قسمت جاگی او ررشد وہدایت کی سوئی ہوئی طاقتوں نے انگڑائی لی، اس کی بیداری کا آغاز سید احمد سرہندی رحمہ اللہ نے گیارھویں صدی ہجری میں فرمایا۔ بدعات کے خلاف کھلی جنگ لڑی۔ بدعت کی تقسیم کاحیلہ عز بن عبدالسلام کے وقت سے آرہا تھا۔ لوگ بدعت کو حسنہ کہہ کر جواز کی راہ پیدا کرلیتے تھے، حضرت مجدد نے اسے تارتار کردیا اور فرمایا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہربدعت کو ناپسند فرماتے ہیں تو اسے حسنہ کہنے کاحق کسی کو نہیں دیاجاسکتا۔ شرعاً کوئی بدعت حسنہ نہیں کہلاسکتی۔ سنت سے محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ محبت کی سچی دلیل ہے۔ بدعتی کتنا ہی عابد وزاہد ہو، بارگاہ ِ نبوت میں وہ کسی احترام کا مستحق نہیں![1] مجدد صاحب رحمہ اللہ کی مساعی نتائج وعواقب کے لحاظ سے آج کی مصطلح تحریکات سے کہیں زیادہ ہمہ گیر اور مؤثر تھیں۔ حضرت مجدد الف ثانی، حضرت شاہ ولی اللہ، حضرت شاہ عبدالعزیز رحمہم اللہ نے کوئی اصطلاحی[2] تحریک نہیں چلائی، جس کے بزرگ صدر یا سربراہ ہوں، اس کی مجالس کا جال ملک میں پھیلا ہو، جس کے ممبر اور اعوان وانصار کسی عرفی تنظیم کے ماتحت کا م کررہے ہوں، بلکہ ان میں ہرایک اپنے وقت میں ایک مینار ہے، جس سے خود بخود روشنی پھیلتی ہے، لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ کسی عہدے اور عرفی نظم کے بغیر ان تاثرات کو پھیلایا جاتا ہے اور وہ اس سرعت سے پھیلتے ہیں کہ کوئی عرفی تحریک اس کی مثال پیش نہیں کرسکتی، اس لیے ان گزارشات میں اگر کہیں تحریک کا لفظ آجائے تو اس سے مراد آج کی انجمن
[1] ۔ دیکھیں مكتوبات مجدديه(1/411) [2] ۔ مولانا عبیداللہ صاحب سندھی رحمہ اللہ نے شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کو مصطلح تحریک کا بانی قراردیا ہے، یہ ان کا محض حضری تخیل ہے اور بالکل بے دلیل وہم۔ (مؤلف)