کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 138
شخص ائمہ اربعہ رحمہم اللہ سے کسی امام کی کلی طور پر تقلید نہ کرے تو اکابر اہلِ علم کی نظر میں وہ مجرم قرارپاتا ہے۔ بریلی او ردیوبند والے اس پر ناراض ہوتے ہیں۔ طرح طرح کے القاب سے ان لوگوں کو یاد فرمایا جاتا ہے۔ یہ مسلک بھی اپنی قدامت کے لحاظ سے ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کے مسالک سے کسی طرح کم نہیں، بلکہ ان حضرات نے اپنے مسالک میں ائمہ حدیث سے استفادہ کیا ہے۔ جہاں تک تاریخی شہادت کا تعلق ہے، خراسان، ایران، یمن، الجزائر، بربر اور اتصائے مغرب میں ابتداء ائمہ حدیث ہی کامسلک رائج تھا۔ موجودہ فقہی مسالک کو بذریعہ حکومت یا دوسری وجوہ سے غلبہ حاصل ہوا۔ یہ ایک مستقل بحث ہے کہ مختلف ممالک میں کیسے اور کن وجوہ سے مختلف مسالک رائج ہوئے؟ مقدمہ ابن خلدون اور المواعظ والاعتبار بذکر الخطط والآثار مقریزی میں صفحہ(141) سے صفحہ(163) تک شیعہ سنی مذاہب کی اشاعت اور ان کے مناقشات کا مبسوط تذکرہ ملتا ہے، اور ان وجوہ پر روشنی پڑتی ہے جن سے مروجہ مذاہب کی اشاعت ہوئی۔ مقریزی نے ان ائمہ اور بادشاہوں کا نام بہ بنام اور سنین کے حساب سے تذکرہ کیا ہے جن کی معرفت مروجہ مذاہب کا رواج ہوا، اس کے ساتھ ہی شیعہ حضرات اور ان کے تشدد کا بھی ذکر کیا ہے، جو اپنے مسلک کی اشاعت میں مصر اور اس کے اطراف میں ان سے ظاہر ہوا، اس سے سلف کے مسلک کی قدامت اور غربت کے وجوہ بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ اندھیرے میں روشنی کی کرن: بارھویں صدی ہجری اللہ تعالیٰ کی رحمت کا خاص وقت معلوم ہوتا ہے، اس ماحول میں دنیائے اسلام میں ایک بیداری محسوس ہورہی ہے، ان محیط اندھیروں میں کہیں کہیں اور کبھی کبھی روشنی سی نمودار ہوتی ہے۔ عرب میں نجدی تحریک پیدا ہوئی، جس کی قیادت شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی رحمہ اللہ