کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 136
تھے۔ کتاب او رسنت کو براہ راست سلفِ اُمت صحابہ او رتابعین کی طرح سمجھنے اورسوچنے کی کوشش فرماتے تھے۔ تقلید اور جمود کی تنگ دامانیوں سے وہ اپنا دامن بچائے رکھتے تھے۔ ایسے لوگ ہرزمانے میں کافی تھے اور پھر یہ لوگ بہت ہی اچھی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ یہ لوگ اساتذہ تھے، لوگ ان سے علم سنت پڑھتے اور سیکھتے تھے۔ ایک مختصر سی فہرست بقیدِ سنین ذکر کی جاتی ہے۔ یہ فہرست”تذكرة الحفاظ“ ”البدر الطالع بمحاسن من بعد القرن السابع للشوكاني“ اور”انتاج المكلل للنواب صديق حسن خاں“ سے منقول ہے۔ اس سے دوچیزوں کی وضاحت مقصود ہے: 1۔ اول یہ کہ یہ نظریہ نیا نہیں۔ بڑے فحول اور اکابر اہلِ علم نے تقلید سے پرہیز اور ائمہ سلف کی راہ کو پسندفرمایا ہے۔ 2۔ دوسرے یہ کہ تقلید شخصی پر کبھی اجماع نہیں ہوا، بلکہ ہردور میں اہلِ علم تحقیق وتفمص کے طلبگار رہے۔۔۔ اس مسلک کے لیے”وہابیت“ کا عنوان بڑا جھوٹ ہے۔ وہابیوں کا مرکزی مقام نجد اور حجاز ہے، لیکن وہ لوگ اکثر حنبلی ہیں۔ خال خال ان میں سلفی بھی ہیں، اور یہ وہی لوگ ہیں جن حضرات نے فن حدیث کی تحصیل ہندوستان سے کی یا پھرحافظ شوکانی اور علامہ حیات سندھی سے علم حدیث کا استفادہ فرمایا، گویا وہابیوں کو بھی سلفیت یا ہندوستان سے ملی یا یمن اور حجاز سے۔ تعجب ہے آج کل کے بعض اکابر علمائے دیوبند بھی اس لقب کے استعمال میں غلط بیانی سے نہیں ڈرتے۔ بریلوی انھیں وہابی کہتے ہیں، وہ اس کا انتقام اہلحدیث سے لیتے ہیں! تیسری صدی تک تو اتفاق ہے کہ تقلیدِ ائمہ کی پابندی کا رواج نہ تھا، بلکہ شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ کےارشاد کے مطابق اس کا عام رواج چوتھی صدی کے بعد ہوا، لیکن محققین ائمہ کے نزدیک اجتہاد کا دروازہ اس وقت بھی بند نہیں ہوا، اس لیے امام ذہبی کئی ائمہ کے تذکرہ میں فرماتے ہیں کہ وہ مجتہد تھے، کہیں فرماتے ہیں:((كان لا يقلد