کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 135
حد تک کمزور کردیا ہے۔ محدثین کے حافظوں کا ذکر کیا جائےتو لوگ اسے افسانہ سمجھتے ہیں۔ فقہاء کی دور اندیشیوں اور نکتہ دانی کا تذکرہ آجائے تو خواص امت تک حیرت میں کھوجاتے ہیں۔ یہ ساری مصیبت جمود نے پیدا کی۔ بڑے بڑے ہوشمند اہل علم احساس کمتری میں مبتلا نظر آئیں گے۔ اس عمومی ابتلا کے باوجود جمود بتدریج اذہان پر چھاگیا ہے۔
اس زمانے میں ایسے بزرگ بھی ملیں گے جو اپنی نظر سے دیکھتے ہیں، اپنی سمجھ سے سوچتے ہیں، منقولات کے فہم میں انھیں اپنے علم اور اپنی فراست پر بجا طور پر اعتماد ہے اور کسی کی تقلید کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
تذکرۃ الحفاظ
حافظ ذہبی نے فنِ رجال میں دو کتابیں لکھی ہیں:میزان الاعتدال اور تذکرۃ الحفاظ۔ میزان میں تو عموماً ضعیف اور مجروح رواۃ کاتذکرہ فرمایا ہے۔ تذکرۃ الحفاظ کی چارجلدیں ہیں، جن میں حفاظ کا تذکرہ فرمایا گیا ہے۔ ان کے اکیس طبقات ہیں۔ پہلی اور دوسری جلد میں دس طبقات کاذکر ہے۔ تیسری اور چوتھی میں گیارہ طبقات مرقوم ہیں۔ کل اکیس طبقات ہوئے۔ اور ان میں تقریباً گیارہ سوانیس ائمہ کا ذکر فرمایا ہے۔ بعض ائمہ کا ذکر ضمناً آیا ہے اور بعض کا تذکرتاً ذکر فرمایا ہے۔ اس تعداد کے علاوہ حافظ ذہبی نے التزام سے تو نہیں فرمایاکہ ہر آدمی کے ساتھ اس کے مسلک کا ذکر کریں گے، لیکن چونکہ ائمہ حدیث کے تذکرے میں یہ کتاب تصنیف فرمائی ہے، اس لیے وہ تذکرتاً کہیں ذکر فرماجاتے ہیں کہ فلاں بزرگ تقلید نہیں کرتے تھے، فلاں بزرگ اہل الرائے کو پسند نہیں کرتے تھے، فلاں بزرگ نے اپنے علاقے میں اہل اثر کے مذہب کو رواج دیا۔
”تذکرۃ الحفاظ“ پر سرسری نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کے حافظ ذہبی کے زمانے(748ھ) تک ایسے لوگ موجود تھے جو شخصی تقلید اور جمود سے پرہیز کرتے