کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 134
اور بےشمار شیخ الاسلام ہوگئے، اگرچہ علم اور عمر کے لحاظ سے وہ کچھ بھی اہمیت نہ رکھتے ہوں۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ مولانا عبدالحئی حنفی فرماتے ہیں کہ پھر یہ لقب ان لوگوں کے لیے مخصوص ہوگیا جو منصبِ افتا پر کسی طرح قابض ہوگئے، گو وہ علم اور تقوے سے قطعاً تہی دست ہوں۔ “ اواخر تیرھویں صدی تک علم کے دروس وانحطاط کا حال ظاہر ہے۔ علم وتقویٰ کی بجائے القاب پر زور ہے۔ جس قدر علم کم ہوگا، اسی قدر جمود بڑھے گا۔ لوگ دوسروں کا سہارا لینے کی کوشش کریں گے۔ ضرورت کے لحاظ سے اسے کوئی واجب کہے یا مباح، لیکن ہے تو ایک لا علمی کا کرشمہ! اسی لیے اس دور میں سارا زور القاب پر آگیا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی اصلاحی کوششوں کے بعد اعتقادی بدعات کی جگہ عملی بدعات نے لے لی۔ موت اور شادی کے مواقع پر ہنود سے یہ رسوم اوربدعات مستعار لے لی گئیں، حکومتوں کے ایوانوں سے لے کر غریب کی جھونپڑیوں تک یہ اندھیرا چھا گیا۔ علماء کا کام بھی محض حیل کی تلاش رہ گیا اور شرعی احکام کو ٹالنا فقہ کی انتہا قرارپاگئی۔ آخری دینی کوشش فتاویٰ عالمگیری کی تدوین ہے۔ وہ بھی آخر یہی کہ مخصوص آراء کو جمع کردیا گیا اور حکومت کی سرپرستی سے اسے اعتماد کی صورت حاصل ہوگئی۔ حافظ ذہبی کی زبان سے اپنے وقت اور اپنے ماحول کے جمود اور تقلید معین کا شکوہ آپ سن چکے۔ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال 748ھ میں ہوا۔ اسی دور کے متعلق حافظ ذہبی نے شکایت فرمائی ہے کہ لوگ تحقیق کی بجائے تقلید کی طرف زیادہ مائل ہیں، اپنی تحقیق اور اپنے علم پر اعتماد کی بجائے دوسروں کے فہم پر اعتماد اور دوسرے کے سہارے پر زندہ رہنا پسند کرتے ہیں۔ اور حقیقت یہی ہے اگر دماغی قوی اور قوتِ فکر اور شعور کو استعمال نہ کیا جائے تو وہ اپنا عمل چھوڑدے گی اور معطل ہوکررہ جائے گی، اسی کا نتیجہ ہے کہ ائمہ سلف کے بعد علم اور تفقہ بتدریج کم ہورہا ہے۔ کتابت اور تذکروں نے حافظوں کو کافی