کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 133
اس آخری دورمیں شیخ عبدالحق (1052ھ) کا وجود غنیمت ہے۔ وہ اپنے وقت کے محدث ہیں، ا ن کے وجود سے دہلی اور دہلی کے اطراف میں حدیث کا چرچا ہوا۔ ان کی رجال پر نظر ہے، لیکن نقلِ روایت میں حافظ سیوطی کے بعد شاید ہی کوئی اس قدر غیر محتاط ہو، ان کی مدارج النبوۃ میں سیرت کے متعلق بڑی جامعیت ہے، لیکن ضعاف اور موضوعات کاذخیرہ بھی حضرت شیخ نے جمع فرمادیا ہے۔ پھر وہ تصوف کی مخترعات اور وقت کی دوسری بدعات کے خلاف کھل کر کچھ کہنا نہیں چاہتے، بلکہ ان کا رجحان حمایت کی طرف ہوتا ہے، وہ شطحیات کے دلدادہ ہیں۔ ان کے رجحانات کا یہ حال ہے کہ ”سفرالسعادۃ“ ایسی محققانہ اور محدثانہ کتاب کی شرح لکھی اور اسے جمود سے ہم آہنگ کرنے کی بھرپور کوشش فرمائی۔ جہاں اتنے بڑے اکابر محدثین کا یہ حال ہو، وہاں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی تجدیدی مساعی او رابن القیم کے تنقیدی کارناموں کا کیا اثر ہوسکتا ہے؟ مولانا عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ بحوالہ حافظ سخاوی لفظ شیخ الاسلام کے غلط استعمال کا شکوہ فرماتے ہیں اور اس کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ((ثم اشتهر بها جماعة من علماء السلف حتى ابتذلت على رأس المائة الثامنة فوصف بها من لا يحصى، وصارت لقبا لمن ولي القضاء الأكبر، ولو عري عن العلم والسنن فإنا لله وإنا إليه راجعون. انتهى كلام السخاوي، قلت: ثم صارت الآن لقبا لمن تولى منصب الفتوى، وإن عري عن لباس العلم والتقوى)) (الفوائد البھیۃ، ص:101) ”شیخین (حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ) کے بعدسلف سے ایک جماعت کے لیے یہ لقب مشہور ہوا۔ پھرآٹھویں صدی میں یہ لقب ایسا عام ہوا کہ جسے قضائے اکبر کا عہد ہ ملا، وہی شیخ الاسلام کے لقب سے مشہور ہوگیا