کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 132
پہنچا، اس وقت ائمہ اربعہ سے امام ابوحنیفہ کے سوا باقی ائمہ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ حضرت امام ابوحنیفہ کے لیے یہ دور طالب علمی کا تھا اور امامت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتاتھا۔ یہ لشکر اہلحدیث تھا اور موجودہ تفریق سے بے خبر۔ ان کا مسلک تقریباً وہی تھا جو آج کل اہلحدیث کا ہے، یعنی بلاتخصص ِ شخص مسائل اہل علم سے پوچھتے تھے اور اس پر عمل کرتے تھے، اسی لیے عامۃ المسلمین میں اس وقت تعصب ناپیداتھا۔ دوسرا حملہ ایران کی راہ سے ہوا۔ یہ فاتح عموماً حنفی تھے، انہی کی وجہ سے ہندوستان میں حنفیت پورے زور سے پہنچی۔ اور اس وقت تک احناف کی ملک میں کثرت ہے اور عوام وخواص میں عصبیت بھی ہے۔ الا من رحم! یہ علاقے مرکز سےکافی دور اور علوم کی برکات سے بے حد تشنہ رہے۔ یہاں کے علماء عموماً حجاز میں اقامت اور ہجرت کو ترجیح دیتے رہے، ان حالات میں اگر یہاں جمود ہو، تحقیق اور اجتہاد سے عوام نفرت کریں تو اس میں تعجب نہیں۔ جمود ایسے علاقوں میں مستعبد نہیں، اس صورت حال کے پیش نظر برصغیر ہندوستان وپاکستان کے حالات عرب سے کہیں ابتر ہونے چاہئیں۔ اس کا تذکرہ حافظ ذہبی نے فرمایا ہے۔ یہاں کی حکومت اکثر جاہل، اس کے ساتھ حکام میں بے عملی اور بدعملی دونوں کارفرماتھیں۔ علماء اور فقراء بھی اپنے مقام سے ہٹ چکے تھے۔ علامہ صنعانی(560ھ) کے بعد یہاں چند گنے چنے بزرگ نظر آتے ہیں، شیخ علی المتقی (975ھ) شیخ محمد طاہر پٹنوی شہید(986ھ) اور سب سے آخر میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی(1052ھ) جہاں اکبر جیسے فاسق بادشاہ اورملّا مبارک کا خاندان ملک کے دروبسط پر محیط ہوں۔ فواحش اور فسق وفجور کی حکومت کی طرف سے حوصلہ افزائی ہو، وہاں تقلید وجمود سے آگے ذہن کہاں تک پرواز کرسکتے ہیں؟اوریہ چند مخلص بزرگ بدعت اور شرک کے ان جھگڑوں اور آندھیوں کا کہاں تک مقابلہ کرسکتے ہیں؟[1]
[1] ۔ /فوجیں پہنچیں۔ دوسراحملہ چوتھی صدی ہجری میں سلطان محمود غزنوی نے کیا، اس وقت مذاہب اربعہ کا رواج کسی قدر ہوچکا تھا۔ غزنویوں کے بعد حکومت غوریوں کی طرف منتقل ہوگئی۔ (مؤقف)