کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 130
پرتالے ڈالنے کی کوشش نہ کی جائے۔ یہ انسانیت پر ظلم بھی ہے اور اس کی توہین بھی، اور علم وبصیرت کے ساتھ دشمنی کے مترادف بھی!
حافظ ذہبی رحمہ اللہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مناقب، وسعتِ علم اور ان کے تفردات واختیارات کا ذکر فرماتے ہوئے اپنے دور کے شخصی جمود کا تذکرہ عجیب انداز سے فرماتے ہیں:
”حضرت عبداللہ بن مسعود کی سیرت اگر لکھی جائے تو تقریباً نصف جلد اسی میں سماجائے۔ وہ کبار صحابہ سے تھے، وہ نہایت وسیع العلم اور ہدایت کے امام تھے، اس کے باوجود فروعی مسائل اور قراءت میں ان کے کچھ تفردات تھے جو کتابوں میں موجود ہیں۔ ہرامام کی بعض باتیں لے لی جاتی ہیں اور بعض نظر انداز کردی جاتی ہیں، سوائے امام الاتقیاء صادق مصدوق نبی الرحمہ حضرت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے، جو معصوم اور امین ہیں۔ اس عالم پر تعجب ہے جو کسی خاص امام کی تقلید کرے، باوجود یہ کہ اسے ان نصوص کا علم ہے جو اس کے امام کے خلاف پائی جاتی ہیں۔ لاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ۔ اھ (تذکرۃ الحفاظ:1/15)
جمود کے خلاف ہر دور کے علماء نے بہت کچھ کیا ہے۔ ابوشامہ، شاطبی، ابن قدامہ جیسے مشاہیر نے اس مرض کے خطرات سے آگاہ فرمایا۔ ابن قیم فرماتے ہیں۔ ؎
العلم معرفة الهدى بدليله
ما ذاك والتقليد يستويان
إذا جمع العلماء إن مقلدا
للناس كالأعمى هما أخوان [1]
”علم معرفت بالدلیل کا نام ہے۔ تقلید اس کے مساوی اور مرادف نہیں ہوسکتی۔ علماء کا اجماع ہے کہ تقلید نابینگی کے مرادف ہے۔ “
میں نے اس مقام پر ذہبی کے تاثرات کو اس لیے ذرا تفصیل سے لکھا ہے کہ ذہبی
[1] ۔ القصیدۃ الشوفیة (ص:99)