کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 129
حافظ ذہبی نے اپنے وقت کے اس مرض کو جس درد انگیز طریقے سے بیان فرمایا اور جس ہمدردی سے ذکر کیا، اس سے ظاہر ہے کہ آٹھویں صدی میں جمود اور شخصیت پرستی کب قدر بڑھ چکی ہے، اور حافظ ذہبی اس سےکس قدر خائف اور متاثر ہیں، اور اسکے عواقب اور نتائج سے ائمہ حدیث کی دُور اندیش نظریں کس قدر آگاہ ہیں؟
اور عجیب بات یہ ہے کہ اہلحدیث کے خلاف آٹھویں صدی ہجری میں بھی وہی اسلحہ جات استعمال ہوتے تھے، جو اپنی زنگ آلودشکل میں آج استعمال ہورہے ہیں:یہ فقیہ نہیں یہ عطار ہیں، اصول سے ناآشنا ہیں، منطق نہیں جانتے، عقلی دلائل سے بے خبر ہیں، علم کلام ان کے اذہان سے بالا ہے!!
یہ وہی زنگ آلود اور بوسیدہ اوزار ہیں جوفلاسفہ یونان نے متکلمین کے خلاف استعمال کیے اور فقہائے کرام نے ائمہ حدیث کو ان معائب سے مطعون کیا۔ اور اب حضرات اربابِ تقلید ان لوگوں کے خلاف استعمال فرماتے ہیں جو اس وقت آزادیِ فکر کے حامی ہیں، چاہتے ہیں کہ جب ائمہ مجتہدین حق پر ہیں تو ان سب کے اجتہادات کیوں قابل عمل نہ سمجھے جائیں؟ چار کی تحدید اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے نہیں فرمائی، بعض اوقات حکومتوں نے اپنےمقاصد یاامن عامہ کی حفاظت کے لیےکی، اسکے لیے شرعاً اس کی کوئی سند نہیں پائی گئی۔ اگر کسی شخص کو قرآن وسنت میں مناسب بصیرت نہ ہوتو وہ ائمہ اجتہاد کے علوم سےبلاتعیین استفادہ کرے۔ جب سب مجتہدین حق پر ہیں تو حق کو تقسیم کیوں کیا جائے؟تعیین ِ شخص کا تقسیم کے سواکوئی مطلب نہیں۔
بے شک تلفیق سے روکاجائے، اتباع ِہویٰ سے منع کیا جائے، لیکن ہر شخص کی نیت پر مسلط ہونے کی کوشش نہ کی جائے۔ مخفیات او رسرائر کو اللہ تعالیٰ عالم الغیب کےسپرد کیا جائے یا پھر اس قوت کی تحویل پر اعتماد کیا جائےجو ملک کے نظم ونسق اور قیام امن کی ذمے دار ہے، لیکن انسانی اذہان وافکار، عقل وبصیرت اور نظر واجتہاد