کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 128
بے پرواتھے۔ فقہاء میں تقلید نمایاں ہوچکی تھی اور اجتہادات میں تناقض ظاہر ہوچکا تھا، اللہ پاک ہے جس کے قبضے میں خلق اورامر ہے۔ ”اے شیخ! خدا کی قسم اپنے آپ پر رحم کرواور انصاف کی نگاہ سے دیکھو، ان کی طرف غلط نگاہ مت ڈالو اور ان کے نقائص کی تلاش مت کرو۔ یہ مت خیال کرو وہ آج کل کے محدثین کی طرح ہیں۔ حاشا وکلا۔ میں نے جن ائمہ حدیث کاذکر کیا ہے، وہ دین میں پوری بصیرت رکھتے تھے اور نجات کی راہ کو خوب سمجھتے تھے، ہمارے زمانے کے بڑے بڑے محدث بھی علم وبصیرت میں ان کا لگا نہیں کھاسکتے تھے۔ ”میں یقین رکھتا ہوں کہ تم اپنی ہویٰ پرستی کی وجہ سے اگر کھلے طور پر نہ کہہ سکے تو بزبانِ حال کہو گے کہ احمد بن حنبل کیا چیز ہے؟ابن مدینی کون ہے؟ابوداؤد اورابوزرعہ کی کیا حقیقت ہے؟ یہ صرف محدث ہیں، انھیں فقہ کا پتا ہی نہیں! نہ وہ اصول سے واقف ہیں نہ انھیں معلوم ہے کہ رائے کیا چیز ہے؟ نہ وہ معافی اور بیان کے وقائع کو سمجھتے تھے، نہ وہ منطق کی باریکیوں کو جانتے تھے، نہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی پردلائل دے سکتے تھے، نہ فقہائے ملت میں ان کا کہیں تذکرہ پایا جاتا ہے۔ یا توحلم سے چپ رہو یاعلم سے بات کرو۔ مفید علم وہی ہے جو ان حضرات سے منقول ہے۔ تمہارے فقیہ تو ہمارے آج کل کے محدثین کی طرح ہیں، نہ ہم کچھ چیز ہیں نہ آپ ہی کچھ جانتے ہیں۔ اربابِ فضیلت کی قدر اہلِ فضل ہی جانتے ہیں۔ جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اپنی کمزوری کا اعتراف کرتا ہے۔ جو کبروغرور اورشرپسندی سے گفتگو کرتاہے، اس کا معاملہ خدا پر چھوڑ دو، اس کا انجام وبال ہے، ہم اللہ تعالیٰ سے معافی وسلامتی چاہتے ہیں۔ “( تذکرۃ الحفاظ:2/627)