کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 127
في الصدور فهي كانت خزائن العلم لهم- رضي الله عنهم)) (تذکرۃ الحفاظ:1/150)
”اس وقت بصرہ میں عمرو بن عبید اورواصل بن عطا کاظہور ہوا۔ وہ لوگوں کو اعتزال اور انکارِ تقدیر کی دعوت دینے لگے، اور خراسان میں جہم بن صفوان نے تعطیل صفات اور خلق قرآن کی دعوت دی، اور خراسان ہی میں مقاتل بن سلیمان مفسر نے صفات کی دعوت اس طرح دی جس سے تجسیم کا شبہہ ہونے لگا۔ علمائے سلف اور ائمہ تابعین نے ان سب کے خلاف دعوت دی اور ان کی بدعتوں سے لوگوں کو ڈرایا۔ اکابرائمہ حدیث، سنت کی تدوین اور فروع کی تصنیف میں مشغول ہوگئے۔ عربی زبان کےعلوم کی تدوین کثرت سے ہوئی۔ یہ ہارون رشید کے دورِحکومت کی حالت ہے، اسی زمانے میں کتب لغت کی تالیف ہوئی اور علماء کا حفظ کم ہونے لگا اور کتابوں پر زیادہ اعتماد ہونے لگا، اس سے پہلے صحابہ اورتابعین کا علم سینوں میں تھا اور ان کے سینے علم کے خزانے تھے۔ “
یہ اعتقادی بدعات کا دور تھا۔ ائمہ حدیث کی اس باب میں جو مساعی تھیں، ان کا مختصر تذکرہ حافظ ذہبی نے فرمایا ہے۔ وہ اپنے وقت کے فقہاء اور ائمہ حدیث کا سلف کےاہل علم سے موازنہ فرماتے ہوئے تقلید وجمود کے اثرات کا تذکرہ دل گداز انداز سے فرماتے ہیں۔ ابومحمد فضل بن محمد(202ھ) کے تذکرہ کے بعد فرماتے ہیں:
”اس وقت کےقریب قریب ائمہ حدیث کی بڑی تعداد موجود تھی جن کا تذکرہ میں نے اپنی تاریخ میں کیا ہے۔ یہاں میں نے اس کا عشر عشیر بھی ذکر نہیں کیا، اسی طرح اس وقت ائمہ اہل الرائے اورفروع سے بھی کثیر جماعت تھی اورشیعہ متکلمین اور معتزلہ سے بھی بڑے بڑے اساطین موجود تھے، جومعقول کے پیچھے دوڑ رہے تھے اوراتباع سلف اور آثار نبویہ سے