کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 126
اس کے لیے آمادہ نہ تھے۔ عذرِ گناہ، گناہ سے بھی عجیب رہا۔ یہ سب دورِجمود وعصبیت کی نوازشیں ہیں، ورنہ نہ شافع ایسے کمزور ہیں نہ ان کے اتباع اتنے کم سواد کہ صریح کتاب وسنت کے خلاف فتویٰ دیں۔ یہ معلوم ہے کہ متاخرین فقہائے حنفیہ اور ائمہ اصول سے ائمہ شوافع کی کتاب وسنت پر نظر زیادہ وسیع اورعمیق ہے۔ علمائے حدیث کی تعداد شوافع میں کافی زیادہ ہے۔ “ یہ جمود وتقلید کے لوازم سے ہے۔ فرط محبت میں اپنے مخالف کے ساتھ تلخی اور بے ادبی قرین قیاس ہے۔ اس دور کے علمائے اہلحدیث نے اس جمود کے خلاف اپناپورا زور لگایا، اس جمود اور اس کے مضرت رساں اثرات او رطوفان خیزنتائج کا اندازہ، حافظ ابن قیم کی کتاب”اعلام الموقعين“ ”زاد المعاد“اور”الطرق الحكمية“ وغیرہ سے ہوتا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے تلمیذ اور قریب ترین اہل علم میں حافظ ذہبی (748ھ) سابقہ بدعات کا تذکرہ ان الفاظ میں فرماتے ہوئے عباسی دور کی اعتقادی اور ملحدانہ یورش کا تذکرہ فرماتے ہیں: ((وفي هذا الزمان ظهر بالبصرة عمرو بن عبيد العابد، و واصل بن عطاء الغزال، ودعوا الناس إلى الاعتزال والقدر وظهر بخراسان الجهم بن صفوان ودعا إلي تعطيل الرب عز وجل وخلق القرآن، وظهر بخراسان في قبالة مقاتل بن سليمان المفسر وبائع في إثبات الصفات حق جسّم وقام على هؤلاء علماء التابعين وأئمة السلف وحذروا من بدعهم وشرع الكبار في تدوين السنن وتأليف الفروع وتصنيف العربية ثم كثر ذلك في أيام الرشيد وكثرت التصانيف وألفوا في اللغات وأخذ حفظ العلماء ينقص ودونت الكتب واتكلوا عليها وإنما كان قبل ذلك على الصحابة والتابعين