کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 124
قسامہ میں قصاص کا فتویٰ یا جس جانور پر بوقت ذبح عمداً اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، اس کی حلت کا فتویٰ اور مدعی کی قسم او رایک گواہ کی بنا پر مدعی علیہ کے خلاف ڈگری کی اجازت۔ “
1۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ امام داؤد ظاہری کا خیال ہے کہ ا م ولد کی بیع درست ہے، یعنی اس لونڈی کی جس کے بطن اور اس کے مالک کی پشت سے اولاد ہو۔ جمہور ائمہ مالک کی موت کے بعد اس کی بیع کو درست نہیں سمجھتے، لیکن داؤد ظاہری بعض احادیث کی بنا پر اسے درست سمجھتے ہیں۔ یہ ان کی”جہالت“ہے۔
2۔ کسی محلے میں میت پائی جائے، لیکن قاتل معلوم نہ ہو۔ امام مالک، امام احمد بن حنبل، امام شافعی رحمہم اللہ فرماتے ہیں:اگر اہل ِمحلّہ اور مقتول میں سابقہ دشمنی اور باہم خلش کا علم ہوتو قاضی مقتول کے ولی سے پچاس قسمیں لے کر قاتل کی تعیین کے بعد قصاص کی اجازت دے گا۔ احناف کرام اور حضرات ائمہ اصول کے نزدیک یہ امام مالک، امام شافعی، اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ کی ”جہالت“ ہے۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون)
3۔ امام شافعی کا خیال ہے کہ اگرذبیحہ پر بوقت ذبح جان بوجھ کر بھی خدا کا نام نہ لیا جائے، لیکن ذبح کرنے والا مسلمان ہوتو یہ فعل درست نہیں، لیکن ذبیحہ حلال ہے۔ احناف اسے امام شافعی رحمہ اللہ کی ”جہالت“ سے تعبیر فرماتے ہیں۔
4۔ اسی طرح اگر مدعی کے پاس دوگواہ نہ ہوں تو مدعی خود قسم کھائے اور ایک گواہ دے دے تو امام شافعی اجازت دیتے ہیں کہ قاضی اس صورت میں مدعی کو ڈگری دے دے۔ ائمہ حنفیہ کا خیال ہے کہ یہ امام شافعی کی”جہالت“ ہے۔
مسائل میں اختلاف ہوسکتا ہے اور مجتہدین کو حق پہنچتا ہے کہ اپنی تحقیق کے مطابق فتویٰ دیں۔ اَتباع کو حق ہے کہ اپنے امام کی رائے کے مطابق عمل کریں، مگر تلخ اور ترش زبان تو بے حد نامناسب ہے۔ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے متعلق بھی ایسی زبان اختیار نہیں کرنی چاہیے، چہ جائیکہ ائمہ اجتہاد کے متعلق یہ لب ولہجہ اختیار کیا جائے!