کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 123
لِوَارِثٍ)) وغیرہ مسائل پر امام شافعی نے مسکت گفتگو فرمائی۔ [1] (حجۃ اللہ) اہل علم میں تعلیم وتعلم اور بحث ونظر میں کوئی حرج نہیں۔ یہ امام شافعی اور امام محمد دونوں کے لیے باعث فضیلت ہے۔ ایسے شاگرد پر جس قدر فخر کیا جائے، بجا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کی تنقیص: ایک طرف تو امام شافعی رحمہ اللہ کی شاگردی پر فخر ہے، دوسری طرف جب امام شافعی رحمہ اللہ نے بعض فقہائے عراق کے بعض مسائل پر تنقید فرمائی تو حضرت امام شافعی رحمہ اللہ پر اعتراضات شروع ہوگئے اور جاہل تک کہہ دیا گیا۔ اصول ِ بزدوی اوراس کی شرع کشف الاسرار سے لے کر اصول شاشی تک ہر بزرگ کو دیکھئے، امام شافعی کی اجتہادی مساعی کو جہالت سے تعبیر کیا ہے۔ بعض نے امام شافعی رحمہ اللہ کا صراحت سے نام لیا ہے، بعض نے مسائل کاذکر کرکے انھیں جہالت سے یاد فرمایا ہے: ((وكذلك جهل من خالف في اجتهاده الكتاب والسنة من علماء الشريعة، وأئمة الفقه، لو عمل بالغريب من السنة على خلاف الكتاب والسنة المشهورة فمردود باطل، ليس بعذر أصلا، مثل الفتوىٰ ببيع أمهات الأولاد، و مثل القول في القصاص في القسامة، ومثل استباحة متروك التسمية عمدا، والقضاء بالشاهد الواحد ويمين المدعي))[2] ”اسی طرح ائمہ فقہ اور مجتہدین کی جہالت بھی عنداللہ عذر نہیں ہوسکتی، جس میں کتاب اللہ اور سنت مشہورہ کی مخالفت کی ہے یاکسی غریب حدیث پر عمل کیا ہے۔ یہ جہالت مردود اور باطل ہوگی، جیسے ام ولد کی بیع کا فتوی یا
[1] ۔ حجۃ البالغة(ص:309) نیز دیکھیں:آداب الشافعي ومناقبه لابن ابي حاتم(ص:111، 159) [2] ۔ اصول البزدوي(ص:342)