کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 121
مذهبنا صوابا يحتمل الخطأ، ومذهب مخالنا خطأ يحتمل الصواب، إذا سئلنا عن معتقدنا، ومعتقد خصومنا قلنا وجوبا: الحق ما نحن عليه، والباطل ما عليه خصومنا"[1]
”جب ہمیں اپنے او راپنے مخالف کی بابت پوچھا جائے تو ہم کہیں گے کہ ہم یقیناً حق پر ہیں، احتمال یہ ہے کہ ہمارا خیال غلط ہوجائے۔ ہمارا مخالف یقیناً خطا پر ہے، ممکن ہے اس کا خیال درست ہو، لیکن عقائد کے معاملے میں ہم یقیناً حق پر ہیں اور ہمارے مخالف غلطی اور باطل پر ہیں۔ “
حالانکہ عقائد میں پورا استدلال تاویل کا ایک نظر فریب جال ہے۔
ائمہ اربعہ کو حق پر ماننے کے بعد فکر کا یہ انداز یقیناً مستحسن نہیں ہے۔ جب ائمہ اجتہاد کے متعلق معلوم ہے کہ وہ پیغمبر نہیں بلکہ ان کی کوششیں مخلصانہ ہیں تواس تنگ نظری سے کیاحاصل؟ لیکن تقلید وجمود کا یہ لازمی نتیجہ ہے۔ شخصی محبت میں افراط کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مخالف کے متعلق تفریط کرے، اس کے محاسن کو بھی عیب کی نظر سے دیکھے۔ تقلید وجمود میں یہ بڑی ہی عیب ناک چیز ہے، اس میں عصبیت اور سوئے ادب سے بچنا سخت مشکل ہے۔ تعجب ہے کہ یہ حضرات خود از بس بے ادب ہیں، لیکن الزام دوسروں کو دیتے ہیں!!
امام شافعی رحمہ اللہ کے متعلق عجیب روش:
حضرت امام شافعی کی ذہانت او رعلمی رفعت کی بنا پر کوشش فرمائی گئی کہ انھیں اپنا شاگرد ظاہر کیا جائے، اس میں کوئی حرج بھی نہیں۔ علم امانت ہے، جہاں سے ملے ملے لینا چاہیے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے یقیناً اپنے وقت کے اکابر سے علم حاصل کیا۔ فقہ اور حدیث دونوں اپنے وقت کے کامل اساتذہ سے سیکھے۔ چنانچہ علامہ علاء الدین حصکفی ذکر فرماتے ہیں کہ امام شافعی امام محمد کے تلامذہ سے تھے:
[1] ۔ الاشباه والنظائر لابن نجيم الحنفي(ص:381) رد المختار(1/115)