کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 120
شیخ الاسلام نے مسلک اہلحدیث کی حمایت اور ترجیح میں بڑی وسعت سے کام لیا ہے۔ شاید یہ بسط شیخ کی کسی دوسری کتاب میں نہ ملے۔ اس کتاب سے شیخ الاسلام کی روشن خیالی اور وسعت ِظرف کا اندازہ ہوتا ہے۔ یونانی فلسفے کی پسپائی: شیخ الاسلام اور ان کے رفقائے عالی مقام نے یونانی فلسفے کی صرف مخالفت ہی نہیں فرمائی، بلکہ اس پر اس قدر بھر پور وار کیے کہ علماء کے علاوہ عوام میں بھی یونانی علوم اور یونانی نظریات کی کوئی علمی آبرو نہ رہی، بلکہ ان کی﴿جُنْدٌ مَا هُنَالِكَ مَهْزُومٌ مِنَ الأحْزَابِ﴾ کی سی کیفیت ہوگئی اور صدیوں کی اعتقادی پابندیاں اور اس دور کی تقلید پرورنزا عیں تقریباً ختم ہوگئیں، اور اعتزال اور تجہم کے پیدا کیے ہوئے فرقے ایک ایک کرکے تاریخ کے اوراق میں دفن ہوگئے۔ مذاہب وملل اور ردودومناظرات کی کتابوں کے سوا یہ فرقے عملاً ختم ہوگئے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے تجدیدی کارناموں میں یہ اہم کارنامہ اور ائمہ حدیث کی مصالحانہ خدمات میں یہ سب سے عظیم الشان خدمت ہے۔۔ اللهم تقبل منهم كما تتقبل من عبادك الصالحين۔ شیخ الاسلام اور ان کے رفقاء یونانی جارحیت کےخلاف تو کامیاب ہوگئے، لیکن تقلیدی جمود کے خلاف اس قدر کامیاب نہ ہوسکے جس قدر ظروف اور حالات کا تقاضا تھا، بلکہ فقہی جمود تیز ترہوگیا۔ ائمہ اربعہ کی حقانیت مسلمہ ہوجانے کے باوجود یہ چاروں حق پرور گروہ ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار ہوگئے۔ ہرایک نے یہی سمجھا کہ حق حقیقتاً ہمارے ہاں فروکش اور تشریف فرما ہے، باقی ائمہ کی صداقت صرف ایک ظن ہے۔ حضرت علامہ علاء الدین حصکفی”ردالمختار“میں”الاشباہ والنظائر“کے حوالے سے فرماتے ہیں: "وفيها إذا سئلنا عن مذهبنا ومذهب مخالفنا، قلنا وجوبا: