کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 119
أهلُ الحديثِ هُمُ أهلُ النبيّ وإن لم يصحَبوا نفسَهُ، أنفاسَهُ صَحِبوا[1] یہی حال تقریباً حنابلہ کا رہا۔ وہ اشعریت او رماتریدیت سے بہت کم متاثر ہوئے۔ اہلحدیث نے کتاب وسنت کے فہم میں کسی فرد کی امامت کے بجائے ائمہ سلف اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو اپنا امام تصور کیا، اور فروع وعقائد اور احسان وتصوف میں ان بزرگوں کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، اور نہ شخصی آراوافکار کو ائمہ سلف اور صحابہ کا بدل سمجھا۔ دراصل فتنوں کے دورِعروج میں آزادی اور پابندی، جمود اور آوارگی کے بین بین یہی صحیح حل تھا، جسے ائمہ حدیث نے تلاش فرمایا اور عملاً صدیوں اس پر کاربندرہ کر آوارگی ذہن اور جمود کا مقابلہ کیا۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ(728ھ) کی مجاہدانہ کو ششیں صفحاتِ تاریخ کی رونق ہیں۔ انھوں نے جہاں اعتزال اورتجہم کو دفن کیا اور ان کے تابوت میں آخری میخ ٹھونکی، وہاں رفاعی فرقے کے فقیروں کے آگ میں کودنے کا چیلنج قبول فرما کر بدعی تصوف کو ہمیشہ کی نیند سلادیا۔ اللهم ارحمه رحمة واسعة۔ یہ جرأت مندانہ جہاد اس وقت عمل میں آیا، جبکہ اربابِ تقلید وجمود کی اکثریت بدعات میں مبتلا ہوچکی تھی، بلکہ ان حضرات نے اصلاح کے پروگرام کی قدم قدم پر مخالفت کی۔ شیخ الاسلام کا یہ ارشاد کس قدر جاندار ہے: ((أهل الحديث في الفرق كالإسلام في الملل)) [2](رد المنطق) منہاج السنہ، کتاب العقل والعقل اور رسالہ ردالمنطق اس موضوع پر انتہائی مفید معلومات سے بھر پور ہیں۔ شیخ الاسلام کی کتاب”الرد علي المنطقيين“میں اس قدر شگفتگی نہیں جس قدر”رد المنطق“ میں ہے۔ اس مختصر رسالے میں
[1] ۔ اہلحدیث ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقدار ہیں، اگرچہ انھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ کی صحبت حاصل نہیں ہوئی، لیکن آپ کی سانسوں(فرامین) کی ہم نشینی توانھیں کو حاصل ہوئی ہے! [2] ۔ نقضر المنطق لابن تيميه (ص:28) نیز دیکھیں:(مجموع الفتاويٰ )(4/24)