کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 118
جمود سے اسے روک دیا گیا۔ لوگوں کو خوامخواہ مجبور کیا گیا کہ وہ چار ائمہ سے کسی نہ کسی کی تقلید ضرور کریں۔ گویہ شرعاً واجب نہیں، مگرضرورتاً اسے کالواجب سمجھنا چاہیے۔ تھوڑی دور آگے بڑھ کر عقائد کے اختلاف میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، کی جگہ اشعری اور ماتریدی کو دے دی گئی۔ یہ حضرات عقائد میں الگ ائمہ قرارپائے۔ گویا فقہی فروع میں الگ امام، عقائد میں اور امام، پھر ذرا اس سے آگے بڑھ کر جب تصوف میں طبقاتی دور آیا۔ اسلامی زہد وورع یا احسان میں جب بدعات شامل ہونے لگیں اور خانقاہی نظام نے پیشہ اور دکانداری کی صورت اختیار کرلی تو اس وقت کے دانشوروں نے چند امام یا فرقے انتخاب کرلیے، یعنی حنفی اور شافعی، مالکی اور حنبلی تصوف میں نقشبندی، قادری، سہروردی اور چشتی وغیرہ ہوگئے۔ گویا تین مختلف محاذوں پر ائمہ کے متبعین نے اپنے امام بدل لیے۔ یوں سمجھئے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے باقی رفقا کی امامت فروع تک محدود ہوگئی، وہ تصوف اور عقائد میں امام ومقتدیٰ نہیں بن سکتے۔ ہمارے ملک میں احناف کی بریلوی قسم عموماً قادری ہیںِ، حالانکہ شیخ عبدالقادر رحمہ اللہ فروع میں حنبلی تھے۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے تصوف میں دس فرقوں کاذکر فرمایا ہے۔ اہلِ حدیث کی روش: ان تمام مقامات میں بحمداللہ اہلحدیث کی روش ایک جیسی رہی۔ وہ فروع، عقائد اور تصوف میں صحابہ کی اتباع کرتے رہے اور خانقاہی نظام کی بدعات سے اسی طرح نفرت کی، جس طرح فروع میں جامد تقلید اور عقائد میں بے دینی کی بدعات سے انھیں نفرت تھی۔ ﴿ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ﴾ ان تمام مراحل میں ائمہ سلف کی اتباع کرتے اور وقت کی ہرہربدعت سے برسرِ پیکار رہے۔ ؎