کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 117
تقلید کی تین راہیں:
یہ عجیب اتفاق ہے کہ چوتھی صدی کے قریب فقہی فروع میں تلفیق اور اتباع ِ ہویٰ سے بچنے کے لیے اس دور کے عقلا نے ائمہ اربعہ کی تقلید اختیار کرلی۔ اجتہاد کو بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ صحابہ وتابعین کے زمانے میں جس قدر وسعت تھی، تقلید شخصی وذہنی[1]
[1] فویض المعنی والکیفیۃ:یعنی صفات ِباری تعالیٰ کے اثبات میں قرآن وحدیث میں جو الفاظ مذکور ہیں(جیسے استوا، وجہ، ید، سمع، بصر وغیرہ) ہم ان کا معنی جانتے ہیں نہ اس کی کیفیت کا علم رکھتے ہیں۔
2۔ تفويضالکیفيۃ دون المعنی: یعنی صفات باری تعالیٰ کے لیے استعمال کیے گئے الفاظ کامعنی ومفہوم تو واضح اور معلوم ہے، لیکن ہم ان کی کیفیت سے ناواقف ہیں۔ جیسے امام مالک رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ”الاستواء معلوم، والكيف مجهول“یعنی استواء کا معنی ومفہوم تو معلوم اور واضح ہے، لیکن اس کی کیفیت وماہیت ہمیں معلوم نہیں۔
اول الذکر معنی کے اعتبار سے تفویض کا عقیدہ ائمہ سلف اور اہل سنت کا عقیدہ نہیں، بلکہ یہ بعض اشاعرہ اور اہل بدعت کا عقیدہ ہے، کیونکہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صفات کے ضمن میں جو الفاظ ذکر کیے ہیں، کوئی بھی ان کے معنی سے آگاہ نہیں، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، اور نہ سلف اُمت۔ گویا یہ الفاظ عبث اور بے فائدہ ہی ذکر کیے گیے ہیں، جن کا کوئی معنی ومطلب مقصود نہ تھا۔ اس بیان وتوضیح ہی سے اس نظریے کا بدیہی البطلان ہونا معلوم ہوجاتا ہے۔
مزید برآں ائمہ سلف سے صفاتِ باری تعالیٰ کے معنی کے متعلق صریح نصوص وار د ہوئی ہیں، جیسے استوا کا معنی ارتفاع اور علو ثابت ہے، لیکن ان کی کیفیت کا علم نہیں، اہلسنت اگرچہ صفاتِ باری تعالیٰ کا اثبات کرتے ہیں، لیکن وہ تشبیہ کا کلیتاً انکار کرتے ہیں، کیونکہ فرمان باری تعالیٰ ہے:﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾ (الشوریٰ: 11) اس آیت کریمہ میں جہاں تشبیہ وتمثیل کی نفی کی گئی ہے، وہاں اللہ تعالیٰ کے لیے صفات سمع وبصر کا اثبات کیا گیاہے، جس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ صفات کے اثبات سے تشبیہ اور تمثیل لازم نہیں آتے۔
الغرض اول الذکر معنی کے اعتبار سے تفویض کو ائمہ سلف کا عقیدہ قراردینا درست نہیں، البتہ ثانی الذکر معنی کے اعتبار سے عقیدہ سلف پر تفویض کا اطلاق درست ہے۔ لیکن بہتر یہی ہے کہ ایسے مشکوک ومشتبہ الفاظ کے استعمال سے گریز کیا جائے۔