کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 116
سے کام کیا۔ مامون رشید، واثق باللہ، معتصم باللہ، عمائد حکومت ان خیالات سے متاثر تھے، اس وقت ائمہ حدیث بے انتہا مشکلات میں مبتلاہوئے۔
یہ انداز ِفکر تقریباً آٹھویں صدی تک چلتا رہا۔ یونانی فلسفہ سے ائمہ حدیث نے خم ٹھونک کر مقابلہ کیا، اس دور کی فرقہ پرستی کے لیے ابن حزم کی”الفصل“شہرستانی کی”الملل والنحل“ علامہ ابوطاہر عبدالقادر بغدادی(429ھ) کی”الفرق بين الفرق“اور”المواعظ والاعتبار للمقريزي“(صفحہ 141تا 186) ملاحظہ فرمائیے۔
اسلام میں بدعی فرقوں کی کس قدرگرم بازاری رہی۔ آٹھویں صدی میں معلوم ہوتا ہے علمائے سنت نے یونانی فلسفہ کو فاش شکست دی۔ یونانی نظریات کا تار پود بکھیر کررکھ دیا، علمائے حدیث نے انھی کی زبان میں ان سے گفتگو کرکے انھیں یقین دلایا کہ وہ غلطی پر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اورصفات کے متعلق ان کی معلومات سطحی ہیں اور اسلامی عقائد پر ان کے اعتراضات کی حیثیت تلبیسِ ابلیس نفس سے زیادہ نہیں۔
حضرات متکلمین:
عقائد کی اس دیرپا اور صبر آزما جنگ میں کچھ لوگ مخالفت کے باوجود فلاسفہ سے متاثر ہوئے، بعض نصوص میں انھوں نے تاویل کی اور اسلامی نصوص کے لیے ایسےمحامل تلاش کیے جو مسلک تفویض سے مختلف اور جدا تھے، لیکن ائمہ سلف اور ائمہ اربعہ کا تقریباً اجتماعی عقیدہ تفویض تھا۔ احناف نے عموماً عقائد میں ابومنصور محمد بن محمد ماتریدی کی راہ اختیار کی۔ شوافع کا زیادہ رحجان اشعریت کی طرف ہوگیا۔ ائمہ حدیث اور حنابلہ اپنی پرانی راہ پر قائم رہے۔ تاویل سے بچ کر انھوں نے امام احمد اور باقی ائمہ حدیث کی روش کونظر سے اوجھل نہیں ہونے دیا، بلکہ اس سادگی کو قائم رکھا جس کا دوسرا نام تفویض تھا۔ [1] ان عقائد میں ائمہ اربعہ متفق ہیں۔ فروع کی طرح عقائد میں یہ حضرات چنداں مختلف نہیں ہیں۔
[1] ۔ صفات ِ باری تعالیٰ کے ضمن میں تفویض کا اطلاق دومعانی پر ہوتا ہے: