کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 115
ائمہ سلف کے طریق کی پابندی ضروری سمجھتے ہیں۔ شخصی آروافکار اورتقلید جامد سے اذہان کو ہر قیمت پر آزاد رکھنا چاہتے ہیں، لیکن اہل بدعت کی سی ذہن میں آوارگی کسی قیمت پر بھی پسند نہیں کرتے۔ اس وقت کے علمائے اہلحدیث کے سامنے چند کام تھے:احادیث نبویہ کا حفظ اور ضبط، احادیث میں تفقہ او راستنباط، بدعاتِ اعتقادیہ اور عملیہ سے کلیتاً پرہیز۔
شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ سے ائمہ حدیث کے مذہب کی بابت پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
”علمائے محدثین بیک مذہب از مذاہب مجتہدین پابند نمی باشند، بس بعضے اعمال ایشاں مطابق کتب فقہ می باشند وبعضے دیگر مطابق کتب فقہ می باشند و بعضے دیگر مطابق کتب دیگر“اھ(فتاویٰ عزیزی:2/117)
”ائمہ حدیث مروجہ مذاہب کے پابند نہیں ہوتے، فقہائے عراق اور باقی علمی مآخذ سے برابر استفادہ فرماتے ہیں۔ “
شاہ صاحب کے ارشاد سے واضح ہے کہ یہ ایک مستقل مکتب فکر ہے، جس میں پابندی اور جمود نہیں۔
فتنہ اعتزال:
جب عجمی اسلام سے متاثر ہوئے اسلام کی سادگی نے جہاں انھیں کافی حد تک اپنی تربیت میں لے لیا وہاں ان لوگوں نے بھی اسلام کو متاثر کیا۔ یونانی علوم اور فلسفی نظریات اسلام کے بعض بنیادی عقائد سے ٹکرائے۔ صفاتِ باری کی حقیقت کیا ہے؟باری تعالیٰ کےانصاف کی نوعیت کیا ہے؟صفات عین ذات ہیں یا غیر ذات؟حادث اور قدیم کے درمیان ربط کی کیا صورت ہے؟ بیسیوں مسائل ومباحث سطح ذہن پر اُبھر آئے۔
یہیں سے اعتقادی بدعات کا آغاز ہوا۔ علمائے سنت کو یونانی اسلحہ سے مسلح ہوکر ان مباحث کو حل کرنا پڑا۔ بدعات کے شیوع نے ایک دفعہ اہل علم کو حیرت میں ڈال دیا۔ امام احمد، علامہ عبدالعزیز کنانی وغیرہ نے اس وقت بڑی جرأت اور ثابت قدمی