کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 114
ایک دوسرا اثر ملاحظہ فرمائیے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے خطبہ دیا:
”اے لوگو!اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی پیغمبر نہیں بھیجا اور قرآن کے بعد کوئی کتاب نازل نہیں فرمائی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے جو حلال ہے وہی حلال ہے اور جو آپ نے حرام ٹھہرادیا، وہی حرام ہے۔ یہ حکم تا قیامت ہے۔ میں خود قاضی نہیں، بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں کو نافذ اور جاری کرتا ہوں۔ میں پہلوں کا متبع ہوں، میں خود کوئی نئی چیز پیدا نہیں کرنا چاہتا۔ میں تم سے بہتر نہیں ہوں، لیکن مجھ پر تم سے ذمے داری اور بوجھ زیادہ ہے، اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت ضروری نہیں۔ کیا میں نے سنادیا؟“[1]
ان آثار سے اس وقت کی ذہنی حالت کا پتا چلتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت علماء کے ذہن پر کیا خطرات محیط ہیں؟اتباعِ سلف پر اعتماد کے ساتھ جامد پابندی اور آوارگی دونوں سے بچنا چاہتے ہیں۔ بدعت سے بھی پرہیز پیش نظر ہے اور اپنی حاکمانہ حیثیت سے بھی کوئی حکم منوانا پسند نہیں فرماتے۔ پوری توجہ اس طرح ہے کہ بدعت اورآوارگی نہ آنے پائے اور صداقت کی اشاعت جبر سے نہ ہو، بلکہ ضمیر کی آوازمحض اللہ کے لیے ہو۔
سنن دارمی کے ابتدائی ابواب پر غور فرمائیے:
(("باب اجتناب أهل الأهواء والبدع والخصومة" باب في اجتناب الأهواء، باب في فضل العلم والعلماء، باب التوبيخ لمن يطلب العلم لغير الله ))
ان تمام ابواب اور سلف اہل علم کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کتاب وسنت کے بعد
[1] ۔ صحیح سنن دارمی(1/126) الطبقات الکبریٰ لابن سعد(5/250) المعرفة والتاريخ للقسوي (1/574) المدخل السنن الكبري للبيهقي (19) تاريخ واسط(ص:188)