کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 113
یہ نو (9) اصول پہلے بزرگوں (صحابہ و تابعین) کے طریق کار سے ماخوذ ہیں۔ (حجة الله البالغة:2/119)
اس وقت تحریک اہل حدیث:
ابتدائی چار سوسال تک تقلید شخصی اور جمود کم تھا، بلکہ پہلی صدی میں آج کی مروجہ تقلید کا رواج ہی نہیں تھا۔ اواخر صدی میں امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہم اللہ پیدا ہوئے تھے، پھر بتدریج ائمہ کے مسالک کا رواج ہوتا گیا۔
اس وقت کے اہل حدیث علماء کے سامنے اہم مسئلہ یہ تھا:
1۔ لوگ قرآن عزیز اور سنت مطہرہ کی پابندی کریں۔
2۔ اور ان کے سمجھنے میں اگر مشکل پیش آئے تو صحابہ اور تابعین کی روش پر اسے سمجھا جائے۔ فہم میں جمود اور تقلید پیدا ہو نہ آزادی اور آوارگی راہ پائے، بلکہ صحابہ کرام کے زمانہ اور ان کے فتوؤں میں وقت کے مصالح کی بنا پر وسعت قائم رہے۔ علما کے فتوؤں کو قرآن اور سنت کا قائم مقام نہ سمجھا جائے۔
حسن بن بشر رحمۃ اللہ علیہ معافیٰ سے نقل فرماتے ہیں اور معافیٰ امام اوزاعی سے:
((قال كتب عمر بن عبد العزيز أنه لا رأي لأحد في كتاب الله وإنما رأي الأئمة فيما لم ينزل فيه كتاب ولم تمض به سنت من رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا رأي لأحد في سنة سنها رسول الله صلى الله عليه وسلم )) [1] (سنن الدارمي :ص7)
”کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے ہوتے ہوئے کسی شخص کی رائے کو کوئی اہمیت حاصل نہیں۔ ائمہ کی آراء اسی وقت قابل توجہ ہیں جب نہ کتاب اللہ ہو نہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“
[1] ۔ صحيح سنن الدارمي، رقم الحديث(432) الابانة لابن بطة (100) الشرية للآجري (59)جامع بيان العلم (1307)